محمد یعقوب آسی
محفلین
دیکھئے، لگ گئی نا، رونق! ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا تو کچھ کچھ تجربہ ہو گیا ہے پتھروں پر چلنے کا۔ عمر کا آدھا حصہ تو پتھروں کے اِس شہر میں رہتے گزر گیا۔ ویسے آپس کی بات ہے، یہ کہکشاں جسے کہتے ہیں ماہرین تو اِن کو بھی پتھر ہی گردانتے ہیں۔ شاعر کے پیشِ نظر یقیناً یہ کہکشانی پتھر نہیں رہے ہوں گے یا پھر آنے والا کسی طور بھی ’’وہ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا ہو گا (قطع نظر از تذکیر و تانیث)۔ اور بات ڈال دی آنے والے پر، کہکشاں کا کیا ہے! کسی چکنے پتھر سے پاؤں رپٹا اور سر کسی اور پتھر پہ پڑا ۔۔ تو ایک آدھ کہکشاں نہیں پورے کا پورا کلسٹر عین آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے۔ شاعرانہ زبان میں ’’چشمِ وے روشن‘‘ کہہ لیجئے۔
اصل قصہ یہ ہے، کہ جنابِ شاعر نے مرگلہ کی پہاڑیوں پر کرش مشین لگا رکھی ہے، ایک طرف بلاسٹنگ ہو رہی ہے تو دوسری طرف مشین پر پتھر توڑے جا رہے ہیں۔ کام کی زیادتی کہ وجہ سے وہیں ایک عارضی سی رہائش بھی بنا لی۔ موصوف کی ’’وہ‘‘ اپنے ناٹے سے ’’سروقد‘‘ میں کچھ انچ جمع کر کے یعنی ہائی ہیل زیبِ پائے احمریں کئے شوقِ دیدار کے ہاتھوں پہاڑی کے دامن تک تو آ گئیں آگے گرتے ٹوٹتے پتھروں میں جانے کو جو حوصلہ درکار ہے وہ اُن کی نازک بدنی کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ موصوفہ کی مترنم آواز ’’میں آ گئی!!!‘‘ بھی دھماکوں اور گڑگڑاہٹ میں دب گئی۔ بھلا ہو اُس مزدور کا جس نے دیکھ کر صاحب کو بتا دیا ’’اک زنانہ اے جی، پہاڑی نے تلاں، ماہنھ لگنا اے تساں نی بہنو آئی اے‘‘ (پہاڑی کے دامن میں ایک عورت ہے جی، میرا خیال ہے آپ کی بہن آئی ہیں)۔ اس بے چارے پر تو جو بیتی سو بیتی، جنابِ شاعر نے پہاڑی سے نیچے جھانکا اور یہ شعر ہانکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکتے ہو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اپنا تو کچھ کچھ تجربہ ہو گیا ہے پتھروں پر چلنے کا۔ عمر کا آدھا حصہ تو پتھروں کے اِس شہر میں رہتے گزر گیا۔ ویسے آپس کی بات ہے، یہ کہکشاں جسے کہتے ہیں ماہرین تو اِن کو بھی پتھر ہی گردانتے ہیں۔ شاعر کے پیشِ نظر یقیناً یہ کہکشانی پتھر نہیں رہے ہوں گے یا پھر آنے والا کسی طور بھی ’’وہ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا ہو گا (قطع نظر از تذکیر و تانیث)۔ اور بات ڈال دی آنے والے پر، کہکشاں کا کیا ہے! کسی چکنے پتھر سے پاؤں رپٹا اور سر کسی اور پتھر پہ پڑا ۔۔ تو ایک آدھ کہکشاں نہیں پورے کا پورا کلسٹر عین آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے۔ شاعرانہ زبان میں ’’چشمِ وے روشن‘‘ کہہ لیجئے۔
اصل قصہ یہ ہے، کہ جنابِ شاعر نے مرگلہ کی پہاڑیوں پر کرش مشین لگا رکھی ہے، ایک طرف بلاسٹنگ ہو رہی ہے تو دوسری طرف مشین پر پتھر توڑے جا رہے ہیں۔ کام کی زیادتی کہ وجہ سے وہیں ایک عارضی سی رہائش بھی بنا لی۔ موصوف کی ’’وہ‘‘ اپنے ناٹے سے ’’سروقد‘‘ میں کچھ انچ جمع کر کے یعنی ہائی ہیل زیبِ پائے احمریں کئے شوقِ دیدار کے ہاتھوں پہاڑی کے دامن تک تو آ گئیں آگے گرتے ٹوٹتے پتھروں میں جانے کو جو حوصلہ درکار ہے وہ اُن کی نازک بدنی کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ موصوفہ کی مترنم آواز ’’میں آ گئی!!!‘‘ بھی دھماکوں اور گڑگڑاہٹ میں دب گئی۔ بھلا ہو اُس مزدور کا جس نے دیکھ کر صاحب کو بتا دیا ’’اک زنانہ اے جی، پہاڑی نے تلاں، ماہنھ لگنا اے تساں نی بہنو آئی اے‘‘ (پہاڑی کے دامن میں ایک عورت ہے جی، میرا خیال ہے آپ کی بہن آئی ہیں)۔ اس بے چارے پر تو جو بیتی سو بیتی، جنابِ شاعر نے پہاڑی سے نیچے جھانکا اور یہ شعر ہانکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔