شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

گرو جی

محفلین
اب کے تجدید وفا کا نھیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
احمد فراز سے معزرت
اب کے تجدید نکاح کا نھیں امکاں جاناں
اب ھے ت میرے دو بچوں کی ماں جاناں

مزید کے لئے انتظار فرمائیں
 

گرو جی

محفلین
اب اس کی تشریح یہ ھے کہ اب وفا کی تجدید نھیں ھو سکتی
کیوں کہ جب ھم نے منع کیا تب آپ ملک و قوم کے مفاد میں سوچ رھے تھے
تو اب کیا یاد دلائیں
 

مغزل

محفلین
اچھی بات ہے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فراز سے معذرت کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے کوئی کاری ضرب تھوڑی ہی لگائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

گرو جی

محفلین
جناب معزرت کرنی پڑتی ھے نہ ورنہ آپ لوگ سمجیں گے کے کیسا بد تھزیب انساں ھے
 

شمشاد

لائبریرین
اب کے تجدید وفا کا نھیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
احمد فراز سے معزرت
اب کے تجدید نکاح کا نھیں امکاں جاناں
اب ھے تو میرے دو بچوں کی ماں جاناں

مزید کے لئے انتظار فرمائیں

کس " مزید " کا انتظار کروا رہے ہیں؟ مزید اشعار کا یا بچوں کا؟
 

گرو جی

محفلین
کس " مزید " کا انتظار کروا رہے ہیں؟ مزید اشعار کا یا بچوں کا؟

مزید کا مطبل ہے گا کہ آپ لوگ مزید اشعار کا انتظار کریں۔

خیر اسی غزل کا ایک اور شعر

یونہی تیری بڑھتی کمر دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
 

شمشاد

لائبریرین
ابھی میں نے یہ شعر ایک رکن کے دستخط میں دیکھا ہے۔

ایک تم ہو کہ تمھارے پاس ہیں پرائے دل بھی
ایک ہم ہیں کہ ہمارا دل ہی ہمارے قابو میں نہیں

شاعر غالباً کسی قصائی سے مخاطب ہے اورکہہ رہا ہے کہ ایک تم ہو کہ تمہارے پاس پرائے دل بھی ہیں۔ (ظاہر ہے قصائی کے پاس ڈھیر سارے بکرے / بکریوں کے دل ہوں گے، وہ اپنا دل تھوڑا ہی بیچے گا)۔ اور ایک ہم ہیں کہ کوئی بھی محنت طلب کام کرنے سے ہمارا دل ہمارے قابو میں نہیں رہتا، غالباً بہت تیزی سے دھڑکتا ہو گا۔
 

تیلے شاہ

محفلین
اس شعر میں مولانا فضل الرحمان جناب صدر صاب سے مخاطب ہیں اور فرما رہے ہیں
تم ہوئے کہ ہم ہوئے کہ میر ہوئے
حکومت میں آنے کے بعد امیر ہوئے اس لئے اس ملک کو انڈیا سے بچاؤ کل اسی لیے سب اکھٹے ہوئے تھے
 

گرو جی

محفلین
اس شعر میں مولانا فضل الرحمان جناب صدر صاب سے مخاطب ہیں اور فرما رہے ہیں
تم ہوئے کہ ہم ہوئے کہ میر ہوئے
حکومت میں آنے کے بعد امیر ہوئے اس لئے اس ملک کو انڈیا سے بچاؤ کل اسی لیے سب اکھٹے ہوئے تھے

یہ تو آپ نے بجا کہ فرمایا
تیلے بھائی

پنجابی کا ایک گانے کا شعر

مینڈی مج کوئی لے گیا اپنے نال
تے ُاتھے بہہ کہ چوندا ہوئے گا

میری بھینس کوئی اپنے ساتھ لے گیا
اور وہاں بیٹھ کر دودھ نکال رہا ہوگا
 

شمشاد

لائبریرین
اصل پيغام ارسال کردہ از: Farid Rasheed Kavi
لال کتاب بولی یوں
تیلی بیل چراءے کیوں؟
کھلی کھلا کیا مسٹنڈ
بیل کا بیل اور دنڈ کا دنڈ
سلیس تشریح مطلوب ہے

ye Aik Bhut Mazedar Latifa Hai Jab Kabhi Time Milla Tu
Zaroor Urdu Ma Translate Ker K Suna Doon Ga

شاہ جی اگر ٹائم مل گیا ہو تو آ کر سنا دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
محفل میں ایک رکن کے دستخط میں مندرجہ ذیل شعر لکھا ہے :

مجھے اب خط نہ لکھنا احتیاطا
مِرے بیٹے کو پڑھنا آگیا ہے

شاعرہ ایک شادی شدہ عورت ہے اور بیٹے کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ بچوں والی بھی ہے، لیکن اس کا اپنے محبوب سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ ہے۔ شاعرہ کا ایک بیٹا اب اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ لکھنے پڑھنے لگا ہے۔ تو شاعرہ کو یہ ڈر ہے کہ اس کے محبوب کا خط کہیں اس کے بیٹے کے ہاتھ نہ لگ جائے اور لیے وہ اپنے محبوب کو احتیاطاً منع کر رہی ہے کہ اب مجھے خط نہ لکھنا۔ ایسا نہ ہو کہ ڈاکیہ خط گھر پر پھینک کر جائے اور وہ خط بیٹے کے ہاتھ لگ جائے اور وہ پڑھ لے۔ جس سے ان کی محبت کا راز اس کے شوہر تک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

درپردہ وہ اپنے محبوب سے کہہ رہی ہے کہ اب خط لکھنے کی بجائے فون کر لیا کرو۔
 

شمشاد

لائبریرین
کسے اپنا بنائیں کوئی اس قابل نہیں ملتا
یہاں پتھر بہت ملتے ہیں لیکن دل نہیں ملتا​

اس شعر میں شاعر اپنے سسرالی رشتہ داروں کا رونا روتا ہے کہ وہ سارے کے سارے اس کے گھر ہفتوں کے لیے آ جاتے ہیں اور اس کا خوب خرچہ کرواتے ہیں۔ سب کے سب جاہل ہیں اور کوئی بھی قابل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ شاعر کے گھر سامنے والا مکان تعمیر ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہر جگہ پتھر ہی پتھر پڑے ہوئے ہیں۔ خاکروب بھی ہڑتال پر ہیں، اس لیے بہت ہی بُرا حال ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کبھی پا کے تجھ کو کھونا کبھی کھو کے تجھ کو پانا
یہ جنم جنم کا رشتہ تیرے میرے درمیاں ہے​

یہ شعر شاعر نے اپنی اکلوتی کھٹارا گاڑی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کراتے وقت لکھا تھا۔ اس کی گاڑی اکثر چوری ہو جاتی تھی اور ہفتوں پولیس کی تحویل میں رہنے کے بعد ملتی تھی، وہ بھی شکستہ حالت میں۔ شاعر اسے فروخت نہیں کرتا کیونکہ یہ اس کے دادا کی جوانی کی یادگار تھی یعنی اس کے آباؤ اجداد کی اکلوتی نشانی۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب تو اک آنسو بھی رسوا کر جاتا ہے
بچپن میں جی بھر کے رویا کرتے تھے​

شاعر موصوف آب بیتی سُنا رہے ہیں کہ جب بچپن میں اسے ابا اور اماں مارتے تھے تو وہ چیخ چیخ کر پورا محلہ اکٹھا کر لیتا تھا لیکن اب بیوی مارتی ہے تو اس کا ایک آنسو بھی نہیں نکلتا۔ وہ اس لیے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بیوی سے مار کھا کر آ رہا ہے لہٰذا شاعر خاموشی سے بُرے دن کاٹ رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جاگ کر ہم نے گزاری رات ساری اس لئے
سردیوں کے چاند کو احساس تنہائی نہ ہو

اس شعر میں شاعر نے ماحول کی عکس بندی کی ہے کیونکہ بجلی بند ہو چکی تھی، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، مچھر اور کھٹمل اس کا بُرا حال کر رہے تھے۔ صرف چاند کی روشنی تھی۔ شاعر چاند سے شرمندہ ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان کے نظام کے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔ لہٰذا وہ چاند کو اپنی نئی غزل سُنا کر اس کے خیالات بدلنے اور اس کی تنہائی دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ اس کا دماغ چاٹ رہا تھا۔
 
Top