یہ کُچھ دھڑکالگا ہے تجھ کو زاہد ! جِس قیامت کا
وہ اِک چربہ ہےاُس آفت کے پرکالے کی قامت کا
بہت کُچھ شور ہے جِس فتنۂ شورِ قیامت کا
وہ ہے پامالِ اندازِ خِرام اُس سرو قامت کا
سُنا ذِکرِ قیامت جب کبھی واعظ سے مسجد میں!
مِری آنکھوں میں، نقشہ پِھر گیا اُس بُت کے قامت کا
کِسے کہتے ہیں محشر! تیری ٹھوکر کا کرشمہ ہے
قیامت کیابَلا ہے؟ شعبدہ ہے تیرے قامت کا
بنایا باغِ عالَم میں خُدا نے سب کو شیدائی
صنم تیرے گُلِ عارض کا، تیرے سرو قامت کا
مِری تصوِیر سےتصوِیرِ مجنُوں کو کہاں نِسبت
بگولہ دشت کا، خاکہ ہے مجھ وحشی کے قامت کا
محمد حنِیف علی رعبؔ