کِس کو معلوُم تھی پہلے سے خِرد کی قیمت
عالَمِ ہوش پہ احسان ہے دِیوانے کا
چشمِ ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے
راستہ بُھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا
اب تو ہر شام گُزرتی ہے اُسی کوُچے میں
یہ نتیجہ ہُوا ناصح تِرے سمجھانے کا
منزِلِ غم سے گُزرنا تو ہے آساں، اقبالؔ
عِشق ہے نام خود اپنے سے گُزر جانے کا
اقبال صفی پوری