شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

یہ کیا قہر ہے ہم پہ یارب کہ بے مے
گُزر جائے ساون کا یُوں ہی مہینہ

بہار آئی، سب شادماں ہیں مگر ہم
یہ دِن کیسے کاٹیں گے بے جام و مِینا

مولانا حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو

دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو


ساغرؔ صدیقی
 

طارق شاہ

محفلین

چاہا تھا کہ پھر اُن کو نہ چھیڑیں گے، پہ چھیڑا
خواہش کوئی پھر اُن سے نہ کرنی تھی، مگر کی

حسرت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

سُخن میں خامۂ غالؔب کی آتش افشانی
یقیں ہے ہم کو بھی ، لیکن اب اُس میں دم کیا ہے

مرزا اسداللہ خاں غالؔب
 

طارق شاہ

محفلین

زہرآبِ محبّت میں حلاوت ہے کچھ ایسی
میں اُس کو نہ ہرگز شکر و شِیر سے بدلوں

بہادر شاہ ظفؔر
 

طارق شاہ

محفلین

دِل ہے یہ، غنچہ نہیں ہے ، اِس کا عقدہ اے صبا
کھولنے کا جب تلک آئے نہ ڈھب، کُھلتا نہیں


بہادر شاہ ظفؔر
 

طارق شاہ

محفلین

غیر مُمکن ہے مجھے اُنس مُسلمانوں سے
بُوئے خُوں آتی ہے اِس قوم کے افسانوں سے


مجھ پہ کچُھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں!
نام ہی نام ہے، ورنہ میں مُسلمان نہیں


اکبر الٰہ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مِلا ازل میں مجھے میری زندگی کے عِوَض
وہ ایک لمحۂ ہَستی کہ صَرفِ خواب ہُوا

وہ جلوہ مُفتِ نظر تھا، نظر کو کیا کہیے !
کہ پھر بھی ذوقِ تماشا، نہ کامیاب ہُوا

فانی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین
شہرِجنُوں میں کل تلک ، جو بھی تھا سب بدل گیا
مرنے کی خُو نہیں رہی، جینے کا ڈھب بدل گیا

پَل میں ہَوا مِٹا گئی، سارے نقوش نُور کے
دیکھا ذرا سی دیر میں منظرِ شب بدل گیا

شہریار
 
Top