وہ صُبح کو آئے، تو کرُوں باتوں میں دو پہر
اور چاہُوں کہ، دِن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھّا
ڈھل جائے جو دِن بھی تو اِسی طرح کرُوں شام
اور چاہُوں کہ، گر آج سے کل جائے تو اچھّا
جب کل ہو، تو پِھر وہی کرُوں کل کی طرح سے !
گر آج کا دِن بھی یُوں ہی ٹل جائے تو اچھّا
القصّہ! نہیں چاہُوں میں، جائے وہ یہاں سے !
دل اُس کا، یہیں گرچہ بہل جائے تو اچھّا
شیخ محمد ابراہیم ذوؔق