شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

تیری بے صبری ہے حسرتؔ خامکاری کی دلِیل
گریۂ عُشّاق میں ہوتی ہیں تاثیریں کہیں

مولانا حسرؔت موہانی
 

طارق شاہ

محفلین

جب میکدہ چُھٹا تو پِھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو ، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

مرزا اسداللہ خاں غالب
 

طارق شاہ

محفلین

اُس آستاں کی خاک، اگر ضو فشاں نہ ہو
بُرجوں سے آسماں کے اُڑ جائے روشنی

انبالہ ایک شہر تھا، سُنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہُوں اُسی لُٹے ہُوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خِطۂ لاہور ! دیکھنا
لایا ہُوں اُس خرابے سے مَیں لعلِ معدنی

ناصؔر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اِس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی

ہر لفظ ایک شخص ہے، ہر مصرع آدمی
دیکھو مِری غزل میں مِرے دِل کی روشنی

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

یہ دِیا سا ہے کیااندھیرے میں ؟
ہو نہ ہو ، یہ مکان ہے تیرا

دِل تو کہتا ہے در پہ دستک دُوں
سوچتا ہُوں ، کہ تُو کہے گا کیا

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

میں اُس زمین کا دِیدار کرنا چا ہتا ہُوں !
جہاں کبھی بھی، خُدا کا غضب نہیں ہوتا

بشیر بدؔر
 

طارق شاہ

محفلین

خواب دیکھو اور پھر زخموں کی دِلداری کرو
افتخار عارف! نئی منزِل کی تیاری کرو

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

جیسا جتنا رشتہ تھا اُس کو رُسوا مت کرنا
ہم بھی ایسا نہیں کہیں گے، تم بھی ایسا مت کرنا

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

جس دن سے ہم بُلند نِشانوں میں آئے ہیں !
ترکش کے سارے تِیر کمانوں میں آئے ہیں

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چُھپے خواب پہچانتی ہیں
اور کوئی دُوسرا اِس خواب کو پڑھ لے، تو بُرا مانتی ہیں

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

یہ نہیں کہ صِرف حرفِ باریاب اُس کے نام
زندگی کے سارے رنگ، سارے خواب اُس کے نام

افتخار عارف
 

طارق شاہ

محفلین

جیسے، دریاؤں میں خاموش چراغوں کا سفر !
ایسا نَس نَس میں مِرے، دردِ رَواں روشن ہے

بشیر بدر
 

طارق شاہ

محفلین

کوئی ، حالاتِ وطن کا نہیں پُرساں سیماؔب !
سب یہی پُوچھتے آتے ہیں وطن کیوں چھوڑا

سیماؔب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

مِری عرضِ شوق پڑھ لیں، یہ کہاں اُنھیں گوارا
وہیں چاک کردِیا خط، جہاں میرا نام دیکھا

شکیلؔ بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

اے شکیلؔ ! رُوح پَروَر تِری بے خودی کے نغمے !
مگر آج تک نہ ہم نے، تِرے لب پہ جام دیکھا

شکیلؔ بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

ہاں نمازوں کا اثر دیکھ لِیا، پچھلی رات !
میں اِدھر گھر سے گیا تھا، کہ اُدھر تو آئی

مُصطفٰی زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

گھیرا ہے، اگر عِشق کے گردابِ بَلا نے !
یارانہ ، مِری طرح کے پیراک سے رکھّو

سِراج الدّین ظفؔر
 
Top