شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

آج ہر موجِ ہَوا سے ہے سوالی خلقت
لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تِری عُمر دراز

نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی
صُورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

فیض احمد فیضؔ
 

طارق شاہ

محفلین

آج ہر سُر سے ہر اِک راگ کا ناتا ٹوُٹا
ڈُھونڈتی پِھرتی ہے مُطرب کو پھر اُس کی آواز

جوشِشِ درد سے مجنُوں کے گریباں کی طرح
چاک در چاک ہُوا، آج ہر اِک پردۂ ساز

فیض احمد فیضؔ
 

طارق شاہ

محفلین

بدن کے کرب کو، وہ بھی سمجھ نہ پائے گا !
میں دِل میں روؤں گی، آنکھوں میں مُسکراؤں گی

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

محرم فقط تسلّی کے دینے سے کیا حصُول
گر فکر ہو سکے تو دِلِ ناسبُور کی

مِرزا محمد رفیع سودؔا
 

طارق شاہ

محفلین

سودؔا کو عاشقی سے رکھا چاہتا ہے باز
ناصح نصیحت اپنی سے خوبی شعوُر کی

مِرزا محمد رفیع سودؔا
 

طارق شاہ

محفلین

جینے سے اِس قدر بھی، لگاؤ نہ تھا مجھے
تُو نے تو، زندگی کو مِری جان کر دیا

احمد فراؔز
 

طارق شاہ

محفلین

حُسن اُس کا نہیں مُحتاج کُچھ آرائش کا !
جامہ زیبی ہے تصدّق، وہ ہے بیساختہ پن

کیا بیاں کیجیے اعضا کے تناسب کی صفت
دستِ قُدرت نے وہ خود سانچے میں ڈھالا جو بدن

ارشد علی خاں قلؔق
 

طارق شاہ

محفلین

افسوس، کُچھ نہ میری رہائی کا ڈھب ہُوا !
چُھوٹا اِدھر قفس سے اُدھر میں طلب ہُوا

ارشد علی خاں قلؔق
 

طارق شاہ

محفلین

ہم اُن کی چاہ میں آ پہنچے اُس مقام پہ اب !
جہاں سے راہِ دِگر کا پتہ نہیں چلتا


شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

ناکامِ تمنّا دِل، اِس سوچ میں رہتا ہے !
یُوں ہوتا تو کیا ہوتا، یُوں ہوتا تو کیا ہوتا

چراغ حَسن حسؔرت
 

طارق شاہ

محفلین

آگئی یاد، شام ڈھلتے ہی
بُجھ گیا دِل چراغ جلتے ہی

کُھل گئے شہرِِغم کے دروازے
اِک ذرا سی ہَوا کے چلتے ہی

منؔیر نیازی
 

طارق شاہ

محفلین

چار دن کی یہ رفاقت، جو رفاقت بھی نہیں
عُمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے

زندگی یُوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہُوئی جاتی ہے

ساحؔر لُدھیانوی
 

طارق شاہ

محفلین

ہم تمھیں اپنی خبر دیں بھی تو، کیا سوچ کے دیں
ہم کو رہنا ہی نہیں، تم کو خبر ہونے تک

عبدالحمید عدمؔ
 

طارق شاہ

محفلین

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تِرا
کُچھ نے کہا، یہ چاند ہے، کُچھ نے کہا چہرا تِرا

ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پُوچھا کیے
ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظُور تھا پردہ تِرا

بے درد، سُنتی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچّھی غزل
عاشِق تِرا، رُسوا تِرا، شاعِر تِرا، اِنشا تِرا

ابنِ انشا
 

طارق شاہ

محفلین

موسمِ گُل ہو، کہ پت جھڑ ہو بَلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کِھلنے میں ،نہ مُرجھانے میں

ہے ، یُوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کُچھ اور !
ایسی لذّت نہ پُہنچنے میں، نہ رہ جانے میں

احمد مُشتاق
 
Top