شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

میں جنُوں پیشہ و آوارہ قدم تھا، لیکن
تم نے دامن مِرا، یارانِ وطن کیوں چھوڑا


سیماؔب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اگر افسُردگی و مُردہ دِلی قسمت تھی !
تُو نے زندہ مجھے، اے دَورِ فتن کیوں چھوڑا

سیماؔب اکبرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

یادوں کا حِساب رکھ رہا ہُوں
سینے میں عذاب رکھ رہا ہُوں

تم کچھ کہے جاؤ، کیا کہوں میں
بس دِل میں جواب رکھ رہا ہُوں

جون ایلیا
 

طارق شاہ

محفلین

شامِ غم کی سَحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یُوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یُوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے، نامہ بر نہیں ہوتی


دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی


ابنِ اِنشا
 

طارق شاہ

محفلین

دِل فسُردہ تو ہُوا دیکھ کے اُس کو، لیکن
عُمر بھر کون جَواں، کون حَسِیں رہتا ہے

احمد مُشتاق
 

طارق شاہ

محفلین

جو دیکھا مجھے، پھیر لِیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے، مُنہ لگانے کے قابل


وفورِ غم و یاس نے ایسا گھیرا
نہ چُھوڑا، کہیں آنے جانے کے قابل


احمد مشتاق
 

طارق شاہ

محفلین

ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوِید
وہ دِل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی

کمزوریِ نِگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جَلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی

ہاتھوں سے اِنتقام لیا اِرتعاش نے
دامانِ یار سے کوئی نِسبت نہیں رہی

پیہم طوافِ کوچۂ جاناں کے دِن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی

چہرے کو جُھرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمّت نہیں رہی

اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمار
اب مُجھ کو زندگی کی ضرُورت نہیں رہی

خُمار بارہ بنکوی
 

طارق شاہ

محفلین

موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا، اگر تھا تو بہانہ وہ تھا

اِک عجب دَور جوانی کا کبھی یُوں بھی رہا
میں کہانی جو زبانوں پہ، فسانہ وہ تھا

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

اپنا کر لایا ہر اِک غم مَیں، کہ جس پر تھوڑا !
یہ گُماں تک بھی ہُوا ، اُس کا نشانہ وہ تھا

وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چُھپانا غم کا
اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا

شفیق خلش
 

طارق شاہ

محفلین

کہاں وہ نُور کا شمس و قمر میں ہے شُعلہ
جو حُسنِ یا ر کا اپنی نظر میں ہے شُعلہ

نظر کرو وہ بنا گوش و گوشواروں میں
کہ بحرِ حُسن کی ہر ایک گھر میں ہے شُعلہ

مرزا محمد رفیع سودؔا
 

طارق شاہ

محفلین

قرار، ہجر میں اُس کے شراب میں نہ ملِا
وہ رنگ اُس گلِ رعنا کا، خواب میں نہ ملِا

عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا سے !
گُہر مگر وہ نظر کا اُس آب میں نہ ملِا

منؔیر نیازی
 

طارق شاہ

محفلین

یُوں تو ہر شخص اکیلا ہے بَھری دُنیا میں
پھر بھی ہر دِل کے مُقدّر میں نہیں تنہائی

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

آج کُھلنے ہی کو تھا دردِ محبّت کا بھرم !
وہ تو کہیے کہ اچانک ہی تِری یاد آئی


ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

اگر ، یہ حضرتِ دِل عِشق سے حذر کرتے
تو کیا ہی لُطف سے ، ہم زندگی بسر کرتے

نہ فرشِ راہ، اگر ہم دِل و جِگر کرتے
قدم قدم پہ قیامت یہ فِتنہ گر کرتے

حفیظؔ جالندھری
 
Top