شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

پہلے مِری نظر تھی اور ارزانیِ جمال !
اب خواب میں بھی، شکل دِکھاتے نہیں ہو تم

یک لخت تم نے جوؔش کو دِل سے بُھلا دِیا
اور اِس میں بھید کیا ہے، بتاتے نہیں ہو تم

جوؔش ملیح آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

پلٹ کے جائیں نہ پھر سے گلی میں اُن کی خلؔش
اب ایسا دل پہ مُکمل بھی اختیار نہیں

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

وہ اطمینان سے یُوں ہیں، کہ میں کسی کو بھی اب
خود اپنے آپ پہ تہمت لِیا نہیں لگتا


شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

وقوعِ وصل پہ کہتے ہیں سب، کرُوں نہ یقیں
کبھی وہ مجھ کو بھی وعدہ کِیا نہیں لگتا


شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک خوابِ خُوب رُوئے زمانہ نہیں گیا

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کیا زمانہ تھا، دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب !
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

شک کوئی چارہ گری پر نہ ہو، اے چارہ گرو !
ہم سے غم اپنے، دِلاسوں میں دبائے نہ گئے


شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

دِل کے سب دِل میں رہے راز، کِسے کیا کہتے
درجۂ دوست تک احباب بھی لائے نہ گئے

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کہتا نہیں ہے کوئی بھی سچ بات اِن دِنوں
اچھّے نہیں ہیں شہر کے حالات اِن دِنوں

احباب کا رَویّہ بھی بدلا ہُوا سا ہے !
کچھ تنگ ہوگیا ہے مِرا ہاتھ اِن دِنوں

اُس کو بھی اپنے حُسن پہ اب ناز ہوگیا !
ٹھہرے ہُوئے ہیں میرے بھی جذبات اِن دِنوں

اُلجھا دِیا ہے مُجھ کو غَمِ روزگار نے !
مُمکن نہیں ہے تُجھ سے مُلاقات اِن دِنوں

عارف! مُجھے بھی دُکھ تھا ،کبھی کائِنات کا !
خود میں اُلجھ گئی ہے مِری ذات، اِن دِنوں

افتخارعارف
 

طارق شاہ

محفلین

شعُؔور آخر اُسے ہم سے زیادہ جانتے ہو تم
بہت سیدھا سہی، لیکن تمھیں تو بیچ کھائے گا

انور شعؔور
 

طارق شاہ

محفلین

اِک عُمر کٹ گئی ہے تِرے اِنتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جِن سے ایک رات


فِراؔق گورکھپوری
(رگھوپتی سہائے)
 

طارق شاہ

محفلین

ایک ہم ہیں ،کہ بہک جاتے ہیں توبہ کی طرف
ورنہ رندوں میں بُرا چال چلن کِس کا ہے

ریاض خیرآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

حیاتِ چند روزہ بھی حیاتِ جادِواں نِکلی
جو کام آئی جہاں کے وہ متاعِ عارضی کب تھی

فِراقؔ گورکھپُوری
 

طارق شاہ

محفلین

فِراقؔ اب اِتفاقاتِ زمانہ کو بھی کیا کہیے
محبّت کرنے والوں سے کسی کو دُشمنی کب تھی


فِراقؔ گورکھپُوری
 
Top