کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصِیلیں، تو ہَوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اِس موڑ سے آگے !
اِس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نِکہتِ گُل خاک مِلے گی !
یہ سوچ کے، گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اِس شورِ تلاطُم میں کوئی کِس کو پُکارے ؟
کانوں میں یہاں، اپنی صدا تک نہیں آتی
شکیبؔ جلالی