ہر حرف سے خلُوص جَھلکتا دِکھائی دے
ہر شعر نفرتوں کو کُچلتا دِکھائی دے
ہر اِنتخاب شعر ہے صُورت گری، غدیر !
شعروں سے تیرا پیار چھلکتا دِکھائی دے
محفل کے ہر شریک کا دِل جیتنے والی !
دِل تیرے دیکھنے کو مچلتا دِکھائی دے
مالک دِکھائے سالگرہ ایسی بے شُمار !
ہر دل ہی جس میں ، مجھ کو دھڑکتا دِکھائی دے
اندیشہ ہائے زیست سےباقی وہ ڈر نہیں
ہر روزِ نو ، اب اِس کا چمکتا دکھائی دے
طارق شاہ