شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو !
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو
دوستو! اُس نَو بہارِ ناز کی باتیں کرو
ہر رگِ دِل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے !
یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
جو عدَم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی !
اُس سُکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو
کِس لِئے عُذرِ تغافُل، کِس لِئے اِلزامِ عِشق
آج چرخِ تفرقہ پرداز کی باتیں کرو
جو حیاتِ جاوِداں ہے، جو ہے مرگِ ناگہاں
آج کُچھ اُس ناز، اُس انداز کی باتیں کرو
جس کی فُرقت نے پَلٹ دی عِشق کی کایا فِراؔق
آج اُس عیسیٰ نفَس دَم ساز کی باتیں کرو
فِراؔق گورکھپوری