السلام و علیکم !
کتاب میرے پاس نہیں ، سوری !
انٹر نیٹ پر کچھ یوں ہے :
۔۔۔
وہ ثمر تھا میری دُعاؤں کا، اُسے کِس نے اپنا بنا لیا
مِری آنکھ کِس نے اُجاڑ دی،مِرا خواب کِس نے چُرا لیا
تجھے کیا بتائیں کہ دِلنشیں! تِرے عِشق میں، تِری یاد میں
کبھی گفتگو رہی پُھول سے، کبھی چاند چھت پہ بُلا لیا
مِری جنگ کی وہ ہی جیت تھی،مِری فتح کا ، وہی جشن تھا
میں گرا ، تو دَوڑ کےاُس نےجب ، مجھے بازوؤں میں اُٹھا لیا
مِری چاند چُھونے کی حسرتیں،مِری خوشبُو ہونے کی خواہشیں
تُو ملا، تو ایسا لگا صنم! مجھے جو طلب تھی، وہ پا لیا
مِرے دشمنوں کی نظر میں بھی، مرا قد ، بڑا ہی رہا سدا
مِری ماں کی پیاری دعاؤں نے،مجھے ذِلّتوں سے بچا لیا
مجھے پہلے پہلے جو دیکھ کر تِرا حال تھا مجھے یاد ہے!
کبھی جَل گئیں تِری رَوٹیاں، کبھی ہاتھ تُو نے جلا لیا
مِری ڈائری، مِری شاعری، مِرے افتی ! پڑھ کے وہ رَو پڑی
مِرے پاس آ کے کہا مجھے! بڑا روگ تُو نے لگا لیا
اِفتخار نسیم افؔتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل میں بہت سی باتیں مجھے سمجھ نہیں آئیں ، مثلاََ
دعاؤں کا ثمر ودیعت ہوئی شے ٹھہری، اسے دوسرا کون اپنا کرسکتا ہے ؟
وہ ثمر تھا، مطلب رہا نہیں، اگر رہا نہیں تو سوال کیسا کہ کس نے اجاڑ دی، کس نے چرا لیا ؟
یقیناََ جس نے دعاؤ ں میں بخشی تھی، اسی نے ، کہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ وہ
ثمر تھا
۔۔۔
مِری ماں کی پیاری دُعاؤں نے ۔۔۔۔۔
بھی
مِری پیاری ماں کی دعاؤں نے ۔۔۔۔۔
کردینے سے درست لگتا ہے
ورنہ ماں کی دعاؤں کی قسمیں (پیاری، سادہ، معیاری) وغیرہ ہو ئیں صاف نظر آتی ہیں
۔۔۔۔۔
مِرے پاس آ کے کہا مجھے! بڑا روگ تُو نے لگا لیا
بالا مصرع سے یہ مفہوم ملتا ہے کہ اس سے قبل والے مصرعے کا عمل
ذرا سے فاصلے ، یا دُوری پر کھڑے، بیٹھے ہی
کتاب نہیں اس لئے یہ تبصرہ یا خیال آرائی بھی بیکار ہی ہے کہ پتہ نہیں اسی طرح لکھی بھی ہے مرحوم نے یا نہیں
ورنہ دیسی بھایئوں سے کچھ بھی بعید نہیں کہ کسی کے نام سے کچھ بھی لکھ دیں ، یا کسی کے لکھے کو یتیم کردیں کہ اپنا نام دیں
فی امان اللہ