ہمسفر ہوتا کوئی تو بانٹ لیتے دُوریاں !
راہ چلتے لوگ کیا سمجھیں مِری مجبوریاں
مُسکراتی، خواب چُنتی، گُنگُناتی یہ نظر
کِس طرح سمجھیں مِری قسمت کی نامنظوریاں
حادِثوں کی بِھیڑ ہے چلتا ہُوا یہ کارواں
زندگی کا نام ہے لاچاریاں، مجبوریاں
پھر کسی نے آج چھیڑا ذکرِ منزِل اِس طرح
دِل کے دامن سے لِپٹنے آگئی ہیں دُوریاں
سردار انجؔم