شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

جب سمن یا گلاب دیکھوں میں
دِل کو خود پر عذاب دیکھوں میں

زِیست کی جب کتاب دیکھوں میں
سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

ہمسفر ہوتا کوئی تو بانٹ لیتے دُوریاں !
راہ چلتے لوگ کیا سمجھیں مِری مجبوریاں

مُسکراتی، خواب چُنتی، گُنگُناتی یہ نظر
کِس طرح سمجھیں مِری قسمت کی نامنظوریاں

حادِثوں کی بِھیڑ ہے چلتا ہُوا یہ کارواں
زندگی کا نام ہے لاچاریاں، مجبوریاں

پھر کسی نے آج چھیڑا ذکرِ منزِل اِس طرح
دِل کے دامن سے لِپٹنے آگئی ہیں دُوریاں

سردار انجؔم
 

طارق شاہ

محفلین

مُدّتوں سے اشک کے سیلاب میں بہتا ہے دِل
سختیاں، ہر موجِ طُوفاں خیز کی، سہتا ہے دِل

دِل میں سب کُچھ ہےمگر منہ سے نہیں کہتا ہے دِل
اِلتِجا کیسی، دُعا سے محترز رہتا ہے دِل

حفیظؔ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین


صبا چلنے کو ہے ، فصلِ بہاری آنے والی ہے
چمن میں موسمِ گُل کی سواری آنے والی ہے

نہ ہو بُلبُل اُداس اِتنا، کِھلیں گے پُھول بھی جلدی
یہی کُچھ دیر میں باغ و بہاری آنے والی ہے

خِزاں کی رُت میں ہے کُنجِ چمن خاموشیاں کتنی
کوئی دَم بس ہَوائے بیقراری آنے والی ہے

نہ توڑو پُھول تم، بُلبُل بہت غمگین بیٹھا ہے
چمن میں موسم ِ گُل کی سواری آنے والی ہے

شمس الدین بُلبُلؔ
(سندھی شاعری کا اکبر الٰہ آبادی)
(1857-1919)
سندھی کلام سے ترجمہ : سیّد مظہر جمیل

مصنف "جدید سندھی ادب"
۔میلانات۔ رُجحانات۔اِمکانات
اکیڈمی بازیافت
کتاب مارکیٹ، اُردو بازار ، کراچی۔ پاکستان
 

طارق شاہ

محفلین

"نیچرل کریما "
سے چند اشعار
۔۔

نہیں دُوسرا علم انگلش مثال
کہ ہم سُرخ گوہر نہ باشد سفال

پڑھو گے جو سندھی ، نہ پاؤگے زر
چرا می کشی بارِ محنت چو خر

اگر ہے کسی کو یہ سودائے خام !
بود میل طاعت بہ خاطر مُدام

کِرمنل قوائد ہیں سب بے گماں
کشاید درِ دولتِ جاوِداں

غلط ہے، جو سمجھو اِنھیں بے خبر
کہ بالائے طاعت نہ باشد ہُنر

جو سیکھے تُو قانُون کو دفع دار
کہ حاصل کُنی دولتِ پائیدار

اگر تم وکالت کا دو اِمتحاں
کہ روشن ز خورشید با ش جہاں

مقدمے بھی ہُوں جُھوٹے جُھوٹے دو ، چار
کہ اقلیمِ دولت شَوِی شہریار

کھڑے ہوکے پیشاب کر میرے یار !
کہ جنبت بود جائے پرہیزگار


شمس الدین بُلبُلؔ
(سندھی شاعری کا اکبر الٰہ آبادی)
(1857-1919)
سندھی کلام سے ترجمہ : سیّد مظہر جمیل

مصنف "جدید سندھی ادب"
۔میلانات۔ رُجحانات۔اِمکانات
اکیڈمی بازیافت
کتاب مارکیٹ، اُردو بازار ، کراچی۔ پاکستان
 

طارق شاہ

محفلین

وہ میکش تیری آنکھوں کی حکایت سُن کے آیا ہے
جسے ہر وقت پیمانے حَسِیں معلوُم ہوتے ہیں

عبد الحمید عدؔم
 

طارق شاہ

محفلین

اُداسی بھی عدم! احساسِ غم کی ایک دَولت ہے
بسا اوقات، وِیرانے حَسِیں معلوُم ہوتے ہیں

عبد الحمید عدؔم
 

طارق شاہ

محفلین

رنگ ، خوشبُو میں اگر حَل ہو جائے !
وصل کا خواب مُکمل ہو جائے

چاند کا چُوما ہُوا سُرخ گُلاب
تیتری دیکھے تو پاگل ہو جائے

پروین شاکر
 

طارق شاہ

محفلین

ساری دُنیا کو غلط فہمی ہے
مجھ پہ توُ مہربان ہے پیارے

تیرے کوُچے میں‌ ہے سکوُں، ورنہ
ہر زمِیں آسمان ہے پیارے

ابوالاثر حفیظ جالندھری
 

طارق شاہ

محفلین

کہنے سُننے میں جو نہیں آتی
وہ بھی اِک داستان ہے پیارے

توُ نہیں میں ہُوں، میں نہیں توُ ہے
اب کچھ ایسا گُمان ہے پیارے

جگر مُراد آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

شام کُچھ اچّھا نظر آتا ہے بستی کا سماں !
صُبح ہُوتی ہے، تو حالات دِگر ہوتے ہیں

کیا ہُوئی ضابطہ و نظم کی بالا دستی
لوگ اب قتل سرِ راہ گُزر ہوتے ہیں

محؔشر بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

کب اب اِن میں زندگی کی رہی کچھ رَمَق بھی باقی
تِرے مُنتظر ایّام اب، ہُوئے مُنتظر اجَل کے

پسِ مرگ تِیرَگی کا مجھے روز سامنا ہے !
کہاں دِن چڑھا دوبارہ تِرے بعد میرا ڈھل کے

تِری طرح بے مروّت کبھی لوٹ کر نہ آئی
تِرے آنے پر قضا جو، گئی ایک بار ٹل کے

شفیق خلؔش
 
Top