شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

خُدا کا شُکر، کہ ناکامیوں سے تابؔش کی !
ہزار کام، کسی بندۂ خُدا کے چَلے

تابؔش دہلوی
(مسعُودالحسن)
 

طارق شاہ

محفلین

نہ چِھین لے کوئی اِس کو بھی، اِس لئے ہمدم !
متاعِ درد زمانے سے ہم چُھپا کے چَلے

تابؔش دہلوی
(مسعُودالحسن)
 

طارق شاہ

محفلین

دِل کی حالت تھی نہ پنہاں، کُچھ عیاں موجود تھا
جَل بُجھا عرصہ ہُوئے پر بھی دُھواں موجود تھا

شفیق خلؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کیا کہَیں تم سے خَلِؔش! اُس الوِداعی شام کی
وہ بھی آنکھوں میں لئے اشکِ رَواں موجود تھا


شفیق خلؔش
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین

وُسعتِ کون و مکاں میں ، کِس مقام اِس سے فرار !
میں گیا جِس جِس جگہ، غم بھی وہاں موجود تھا

شفیق خَلِؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کون ایسی، جو بچھڑنے پر مِرے روئی نہیں !
یا کبھی، جو یاد آنے پر مِری، کھوئی نہیں

اپنے مُنْہ، خود کو میں یوسف تو نہیں کہتا، مگر
جس نے دیکھا اِک نظر، وہ رات بھر سوئی نہیں

شفیق خَلِؔش
 

طارق شاہ

محفلین

کل کسی شخص نے، اُس شوخ سے جاکر یہ کہا !
آج، در پر تِرے ، اِک عاشقِ پِیر آیا ہے

پُشت خَم کردہ، عصا ہاتھ میں، گردن ہلتی
ضعفِ پِیری سے نہایت ہی حقِیر آیا ہے

سُن کے یہ شکل و شباہت مِری، اُس شوخ نے ، آہ
وہیں معلوُم کِیا ، یہ کہ ! نظؔیر آیا ہے ؟

نظؔیراکبر آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

دِلوں میں گردِ کُدُورَت، لَبوں پہ خاموشی
بڑے فساد کا ساماں سُکُوتِ شہر میں تھا

سِوائے کاہشِ ہستی، کسی نے کیا پایا
مِزاجِ یار کا پَرتو، مِزاجِ دہر میں تھا

وہ ہم ہی تھے ، کہ رہے ہر نظر میں بیگانے !
کوئی مزاج شناسا ، نہ سارے شہر میں تھا

خوشا وہ وقت، کہ منزِل قرِیب تھی، باؔقر
کہ اہلِ ذوق کا مَسکن سوادِ شہر میں تھا

باقؔر زیدی
 

طارق شاہ

محفلین

دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو!
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر، دُعا کرنا

چراغ جاں پہ ، اِس آندھی میں خیریت گُزرے
کوئی اُمید نہیں ہے، مگر دُعا کرنا

اعتبار ساؔجد
 

طارق شاہ

محفلین

مُسافتوں میں، نہ آزار جی کو لگ جائے!
مِزاج داں نہ مِلیں ہمسفر، دُعا کرنا

تمہارے بعد مِرے زخمِ نارَسائی کو
نہ ہو نصِیب کوئی چارہ گر ، دُعا کرنا

اعتبار ساؔجد
 

طارق شاہ

محفلین

کب تھی، اپنے منہ میاں مِٹّھوُ ، کی بھی حاجت ہَمَیں
قصّہ خوانی کو ہماری ، اِک جہاں موجود تھا

شفیق خَلِؔش
 

طارق شاہ

محفلین

دُزدِ حِنائے پا سے، ہُشیار رہیو، غافِل!
یہ لے نہ جائے تیرا کفشِ چکن چُرا کر

باندھا کریں ہیں کیا کیا ، اے مصحفؔی برشتے
مضمونِ تازہ میرے یہ ہم سُخن چُرا کے

غلام ہمدانی مصحفؔی
 
Top