شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

بقیدِ حشر بھی عہدِ وفائے عہد نہ کر
خرابِ شوق کو اُمیدوار رہنے دے

نویدِ زندگیِ دِل کی تاب سہل نہیں!
ابھی کُچھ اور مجھےسوگوار رہنے دے

یقینِ لُطف میں گُم کر نہ لذّتِ بیداد
جو ہو سکے تو، غَمِ اِنتظار رہنے دے

فانؔی بدایونی
(شوکت علی خاں )
 

طارق شاہ

محفلین

خُونِ جگر ہی کھانا آغازِ عِشق میں ہے
رہتی ہے اِس مَرَض میں پِھر کب غذا کی خواہش

وہ شوخ دُشمنِ جاں، اے دِل! تُو اُس کا خواہاں
کرتا ہے کوئی ظالم، ایسی بَلا کی خواہش

مِیر تقی مِیؔر
 

طارق شاہ

محفلین

شوق تھا ، جو یار کے کُوچے ہَمَیں لایا تھا مِیؔر !
پاؤں میں طاقت کہاں اِتنی، کہ اب گھر جائیے

مِیر تقی مِیؔر
 

طارق شاہ

محفلین

آگ کے درمیان سے نِکلا
میں بھی کِس اِمتحان سے نِکلا


جب بھی نِکلا ستارۂ اُمّید
کُہر کے درمیان سے نِکلا

شکیبؔ جلالی
 

طارق شاہ

محفلین

یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے رُوپ میں
ہم نے بھی دن گُزارے درختوں کی چھاؤں میں

یُوں تو رَواں ہیں میرے تعاقُب میں منزِلیں
لیکن، مَیں ٹھوکروں کو لپیٹے ہُوں پاؤں میں

خاطؔر غزنوی
 
Top