شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

کِس قدر جذبہ الٰہی خنجرِ قاتل میں ہے
میان سے نکلے تو مَیں سمجھُوں ،کہ خنجر دِل میں ہے

حالِ دِل کب تک سُنوگے، بس تم اِتنا جان لو !
مُرغِ بِسمِل کی سی کیفیّت، دِلِ بِسمِل میں ہے

مُنہ سے کہیے یا نہ کہیے، مِل گیا ہم کو جواب
آپ کے تیور کہے دیتے ہیں، جو کُچھ دِل میں ہے

فانؔی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

بقائے جذبۂ اُلفت اِسے کہتے ہیں ، اے فانؔی !
کہ اب تک گردِ بادِ خاکِ مجنوں ،شکلِ محمل میں ہے

فانؔی بدایونی
 

طارق شاہ

محفلین

وہ حُسنِ کافر، اللہ اکبر !
تخرِیب دَوراں، آشوبِ محشر

وہ قدِ رعنا، وہ رُوئے رنگیں
عالَم ہی عالَم، منظر ہی منظر

جانِ توجّہ، رُوحِ تغافُل
عُریاں تبسّم، پوشِدہ نشتر

وہ موسمِ گُل، وہ شیشہ و مُل
وہ کیف و مستی، وہ رُت، وہ منظر

نغمہ ہی نغمہ، خوشبُو ہی خوشبُو
صہبا ہی صہبا، ساغر ہی ساغر

جگؔرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

ہندوستاں میں خیر سے اُن کی کمی نہیں!
لب پر ہیں جو خلُوص کا دفتر لئے ہُوئے

دیتے ہیں بات بات پر اِنسانیت کا درس
دِل میں ہزار دشنہ و نشتر لئے ہُوئے

جِگؔرمُرادآبادی
 

طارق شاہ

محفلین

شعُورِ غم نہ ہو، فکرِ مآلِ کار نہ ہو
قیامتیں بھی گُزرجائیں ہوشیار نہ ہو


سمجھ میں برقِ سرِ طُور کِس طرح آئے
جو موجِ بادہ میں ہیجان واِنتشار نہ ہو


اضغر گونڈوی
 

طارق شاہ

محفلین

چراغ بن کے وہی جِھلمِلائے شامِ فِراق
بچا لیے تھے، جو آنسو برائے شامِ فراق

کِدھر چلے گئے وہ ہم نَوائے شامِ فِراق
کھڑی ہے در پہ مِرے سرجُھکائے شامِ فِراق

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

شامِ فِراق، اب نہ پُوچھ، آئی اور آکے ٹل گئی !
دِل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

بزمِ خیال میں تِرے حُسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بُجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی

فیض احمد فیضؔ
 

طارق شاہ

محفلین

چلی سمتِ غیب سے کیا ہَوا کہ چمن ظہوُر کا ، جَل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دِل کہیں سو ہرِی رہی

سِراؔج اورنگ آبادی
 
Top