شمشاد
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۲۱۸
آتی تو دور منہ پر خول چڑھائے بیٹھی رہتی اور حتی الامکان کوئی چیز تک نہ چھوتی۔ یہ سب کچھ حامد دیکھتا اور محسوس کرتا مگر کیا کہہ سکتا۔ ڈاکٹر اور نرسیں سب اس کے ساتھ اھتیاط برتتے تھے۔ اس کی چھوئی ہوئی چیز گویا زہر تھی۔ وہ پڑا پڑا سوچتا کہ افسوس میرا کوئی ہمدرد اور کوئی ساتھی نہیں۔ مس ینگ دن میں ایک پھیرا کر جاتی کیونکہ اس کو ناچ رنگ سے ہی اب فرصت کہاں تھی۔ حامد کے یار دوست اور احباب جن سے ان کو بڑی امیدیں تھیں آئے لیکن کوئی اس کا ساتھی نہ تھا۔ سب اس کی ہوا سے دور ہی رہتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مجھ کو مہلک بیماری ہے۔ اس کو موت کی فکر اور پھر ایک دنیا کی بے رخی مارے ڈالتی تھی۔ وہ دق سے نہین مر رہا تھا۔ روپیہ پیسہ سب کچھ تھا مگر نہ تھا تو کوئی یار غم گسار یا مونس و تیماردار۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ہر شخص اس کو چند روزہ سمجھتا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے دل بہلانے کا سامان مہیا کیا تھا۔ سیر بینیں، گورکھ دھندے، دلچسپ تصویریں۔ طرح طرح کے پھول۔ رنگین کاغذ اور قینچی بھی رکھی رہتی تھی کہ وہ پھول کاٹ کر اپنا دل بہلاتا رہے۔
بہت جلد وہ ہسپتال کی تنہائی سے تنگ آ کر شہر کے باہر ایک بنگلے میں اتھ آیا۔ مس ینگ سے جب اس نے کہا کہ تم بھی بنگلے میں آ جاؤ مگر بالکل الگ رہو تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ یہ ناممکن ہے۔ تم تو سمجھدار آدمی ہو اور پھر مجھ سے یہ کہتے ہو۔
دو مہینے کے اندر ہی اندر حامد کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔ مس ینگ دو دو دن اور تین تین دن نہ آتی۔ روپیہ کی ضرورت ہی اس کو کھینچ لاتی تھی۔ حامد اسی کو غنیمت خیال کرتا وہ اس کے آگے روتا اور کہتا کہ تھوڑی دیر تو اور بیٹھو۔ مجھ سے کچھ دور رہو۔ مگر کچھ دیر تو مجھ سے باتیں کرو مگر وہ نہ بیٹھتی اور صاف کہہ دیتی کہ چہرے پر خول چڑھا کر بھی زیادہ دیر تک تمہارے کمرے میں رہنا یا ٹھہرنا ڈاکٹر مضر بتاتا ہے۔ غرض حامد کو روتا اور پریشان چھوڑ کر وہ چلی جاتی۔ حامد نوکروں کو بلاتا اور انہی سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہتا تھا کاش کے میرا کوئی عزیز ہی ہوتا جو میری تیمارداری کرتا۔ مگر سب کا امتحان ہو چکا تھا۔
عارفہ نے جب سے سنا تھا کہ حامد کو دق ہو گئی ہے تب سے اس کی آنکھوں میں نہ معلوم کیوں نمی آ جاتی تھی۔ وہ حامد سے سخت نفرت کرتی تھی اس کو اس کی ایک ایک بات یاد تھی اور ہر بات تیر کی طرح دل میں اب تک کھٹک رہی تھی۔ اس کو حامد سے ملنے کا خیال تک نہ تھا کیونکہ اس نے ساتھ ہی یہ بھی سُنا تھا کہ مس ینگ کو اب بھی نہیں چھوڑا ہے۔
ہوتے ہوتے اس کو یہ خبر پہنچی کہ حامد کا حال خراب ہے۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھ کو پہنچا دو، میں ایک مرتبہ دیکھ لوں۔ بھائی کو حامد سے سخت نفرت تھی اور اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں جاؤں گا میرے دل میں گنجائش نہیں، یہ تمہارے دل میں گنجائش کہاں سے نکل