اداسیوں کے عذابوں سے پیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شب ِانتظار رکھتی ہوں
یہ دیکھ کتنی منور ہے میری تنہائی
چراغ، بام مثرہ پر ہزار رکھتی ہوں
نہ چاند ہے نہ ستارہ نہ کوئی جُگنو ہے
نصیب میں کئی شب ہائے تار رکھتی ہوں
کہاں سے آئے گا نیلے سمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم '' کا خمار رکھتی ہوں