شمشاد نے کہا:
بوچھی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
بوچھی نے کہا:
شمشاد نے کہا:
ماوراء نے کہا:
اللہ معاف کرے۔۔۔یہ لوگوں کی نظریں کہاں کہاں تک پہنچ جاتی ہیں۔اتنی پرانی بات اب تک یاد ہے۔
میں دیکھتی ہوں میرے ہاتھ کون پیلے کرواتا ہے۔ویسے آج سردی سے بیچارے پیلے ہی ہو رہے ہیں۔
ابھی بات کرتا ہوں باجو سے، وہی کہہ رہی تھیں تمھارے ہاتھ پیلے کروانے کے لیئے
اور ہاں تمھاری بھابھی بھی کچھ اسی قسم کی بات کر رہی تھی۔
فکر نہ کریں ، جلد بہ دیر ماورہ کی باری بس آئی ہی آئی
نہیں ، اب اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔لگتا ہے۔آپ اور شمشاد بھائی میرا گلا دبا کے ہی دم لیں گے۔۔
نیہں ماورہ ، میں تو یہی کہوں گی کہ ابھی عمر ہی کیا ہے پڑھ لکھ کے لڑکی اس قابل تو بن جائے کہ کل کو زندگی کی مشکلات ، تکلیفوں برداشت کر کے خود تو اس قابل ہو کہ اچھے برے حالات کا اچھی طرح فیس کر سکے۔ میں سرسرا اس بات کے خلاف ہو کیوں کہ میری شادی ستارہ سال کی عمر میں ہوئی ۔ اور میں اپنے باپ کے گھر کی ناذو پلی ۔ سسرال گئی تو
اف اف اف بس اف ہی اف ہے
مگر اک فائدہ ہوا آج میں زندگی کو کامیابی کے ساتھ آرام سکون سے گذار رہی ہوں ۔
اب میں جب کسی کی اٹھارہ ، انیس کی شادیوں کا سنتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے نہ سمج بوجھ ہوتی ہے نادان ، مصوم تو بعد میں ان کے لئے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
اس لئے پہلے پڑھائی ، اپنا فیوچر ، ظروری ہے شادی کا کیا ہے ہوجائے گی۔
پڑھائی بہت ضروری ہے، دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی لیکن باجو پاکستان میں زیادہ تر لڑکی کا مستقبل دولہا سے وابستہ ہوتا ہے۔
اسی لئے تو پاکستان کے دولہے دولہن کو پیر کی جوتی سمجتھے ہیں ۔ لڑکی بچاری کا مستقبل ہونے والے سے وابستہ کر دیا جاتا ہے ۔ بچاریاں جن کی قسمت پھوٹتی ہیں ۔ جن بلیوں کو اسی لئے قابو کر لیا جاتا ہے۔
اگر لڑکی اعلئی تعلیم حاصل کر کے اپنا فیوچر سیو کر لیں ، انکا فیوچر سنہرا ، اور باقی کی زندگی کی راھیں روشن ہی ہوتی ہیں نہ وہ دولہے کی محتاج ہوتیں ہیں نہ ہی گھر والوں پر برڈن بنتیں ہیں۔
ویسے ہمارے پاکستانی دولہوں کو صرف اور صرف گوریاں صیح ہانک کے رکھتی ہیں ۔ ورنہ اپنی دولہن کو تو یہ پیر کی جوتی کے سوا کچھ نیں سمجتے۔
اور کچھ ایسے ہونے والے دولہے بھی ہوتے ہیں جن کا مستقبل کسی یورپ ، امریکہ ، کینڈا کی دولہن سے وابستہ ہوتا ہے۔