محمد وارث
لائبریرین
اس واقعے میں میری دلچسپی کچھ اس حوالے سے ہے کہ اول تو سیالکوٹ میں مسیحیوں کے احتجاجی جلوس میرے گھر کے سامنے سے گزرے اور میرے بچے مجھ سے سوال کرتے رہے اور دوم یہ کہ میرے آفس کے ایک لڑکے کا تعلق اس وقوعے کے قصبے کے ساتھ والے گاؤں سے ہے اور وہ روزانہ سمبڑیال سے سیالکوٹ آتا ہے۔
اس کا کہنا ہے، گھر کا بھیدی ہوتے ہوئے، کہ 'جیٹھے کی' میں ایک کثیر تعداد ہیروئن اور دیگر منشیات فروشوں کی ہے اور اس واقعے کو بڑے پیمانے پر لے جانے اور چرچ کو آگ لگانے کے فیصلے میں یہ گروپ پیش پیش تھا، اس سے ان کے کیا مقاصد تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس مافیا کا اس واقعے میں ملوث ہونا کوئی اچنبھے کی بات کم از کم میرے لیے نہیں ہے، سیالکوٹ کے گرد و نواح میں کئی ایسے علاقے اور گاؤں مشہور ہیں جو ایک طرح سے علاقہ غیر ہیں، کچھ علاقوں کی خصوصیت ڈکیتوں اور اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ کے طور پر ہے اور کچھ کی منشیات فروشی بالخصوص ہیروئن کے حوالے سے، یہاں سے نہ صرف ہیروئن دیگر علاقوں کو سپلائی کی جاتی ہے بلکہ دور دور سے 'جہاز' آ کر یہاں سے ہیروئن خریدتے ہیں، اور یہ اتنے با اثر لوگ ہیں کہ مشہورِ زمانہ پنجاب پولیس کے ناکے انکی حدود سے باہر لگے ہوئے ہیں اور وہ آنے جانے والوں کو تو ضرور تنگ کرتے ہیں جامہ تلاشی سے لیکن ان علاقوں میں جاتے نہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ نشہ ہر کے و مے کو برق رفتاری سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، میرے اپنے محلے کے تین حافظِ قرآن نوجوانوں کا ایک گروپ دو تین سال کے اندر اندر اس نشے کی آخری اسٹیج پر ہے۔
جذبات کے ہاتھوں اندھی قومیں خود کشی کر لیتی ہیں، اور ان کو رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، افسوس صد افسوس۔
اس کا کہنا ہے، گھر کا بھیدی ہوتے ہوئے، کہ 'جیٹھے کی' میں ایک کثیر تعداد ہیروئن اور دیگر منشیات فروشوں کی ہے اور اس واقعے کو بڑے پیمانے پر لے جانے اور چرچ کو آگ لگانے کے فیصلے میں یہ گروپ پیش پیش تھا، اس سے ان کے کیا مقاصد تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس مافیا کا اس واقعے میں ملوث ہونا کوئی اچنبھے کی بات کم از کم میرے لیے نہیں ہے، سیالکوٹ کے گرد و نواح میں کئی ایسے علاقے اور گاؤں مشہور ہیں جو ایک طرح سے علاقہ غیر ہیں، کچھ علاقوں کی خصوصیت ڈکیتوں اور اشتہاری مجرموں کی پناہ گاہ کے طور پر ہے اور کچھ کی منشیات فروشی بالخصوص ہیروئن کے حوالے سے، یہاں سے نہ صرف ہیروئن دیگر علاقوں کو سپلائی کی جاتی ہے بلکہ دور دور سے 'جہاز' آ کر یہاں سے ہیروئن خریدتے ہیں، اور یہ اتنے با اثر لوگ ہیں کہ مشہورِ زمانہ پنجاب پولیس کے ناکے انکی حدود سے باہر لگے ہوئے ہیں اور وہ آنے جانے والوں کو تو ضرور تنگ کرتے ہیں جامہ تلاشی سے لیکن ان علاقوں میں جاتے نہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ نشہ ہر کے و مے کو برق رفتاری سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، میرے اپنے محلے کے تین حافظِ قرآن نوجوانوں کا ایک گروپ دو تین سال کے اندر اندر اس نشے کی آخری اسٹیج پر ہے۔
جذبات کے ہاتھوں اندھی قومیں خود کشی کر لیتی ہیں، اور ان کو رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا، افسوس صد افسوس۔