فیصل عظیم فیصل
محفلین
عمر عزیز اصل میں ہردم کمی پذیروہ جو پہلے تھی صوفیوں والی
اس میں تم کچھ بزرگ لگتے تھے
عمر اب کافی گھٹ گئی شاید
کوئی معجون کھا لیا جیسے
ہاں ہم شبہیہ ذات میں ظاہر نہیں ہوئے
عمر عزیز اصل میں ہردم کمی پذیروہ جو پہلے تھی صوفیوں والی
اس میں تم کچھ بزرگ لگتے تھے
عمر اب کافی گھٹ گئی شاید
کوئی معجون کھا لیا جیسے
آجائیں گے ضرور ترے شہر میں خلیلفصیل عظیم بھائی کراچی تو آئیے
ہم آپ کو کھلائیں یہاں ریشمی کباب
یا پھر کبھی ہمارا جو لاہور ہو گزر
ہم ساتھ بیٹھ کر وہیں کھالیں گے کچھ جناب
کھاکے معجون ہوگئے ہیں جواں
ورنہ رونق یہ چاندنی تھی کہاں
کیسی بدلی ہے جون فیصل نے
پہلے صوفی تھے ، اب بنے ہیں میاں
گل رعنا ۔ رخ ''زیبا'' کہاں جوہی و "تمنا"عین عین بھائی
گو ساتھ چاہیئے ’گلِ رعنا‘ کو دیکھیے
اک چہرہ چاہیئے، رخِ ’زیبا‘ کو دیکھیئے
یکسانیت سے نام کی اکتا گیے ہیں آپ
’جوہی‘ کو، ’سروری‘ کو، ’تمنا‘ کو دیکھیئے
کس نے کیا ہے کس کو فراموش کچھ بتا’’ اچھا ہوا کہ تو نے فراموش کردیا ‘’
ورنہ خلیلِ یار بھی محمود تھا کبھی ۔۔۔
بھائی محمود گفتگو نہ شدیرفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے
آپ سے پھر تم ہوئے ، پھر تم کا عنواں ہوگئے
بھائی محمود الرشید اب آپ ہی کچھ بولیے
انتظارِ یار میں ہم خود تو بے جاں ہوگئے
تعریف تری کر دی استاذِ گرا می نےواہ ذیشان نے یہ خوب کیا، خوب کہا
یہی مطلب ہے کہ یہ راہ بھی آساں نکلی
ایسے ہی شعر ’بنایا کرو‘ آسانی سے
چاہے یوں کہہ دو کہ یہ قیس بھی تصویر کے پردے سے بھی عریاں ’نکلی‘
۔۔۔ اس کو کہتے ہیں سب آزاد غزل )
آپ تو محمود تھے پھر ہوگئے تھے کچھ مغلکیا کہیں اور کیا سنائیں عشق میں تم کو خلیل
ہم کبھی محمود ہوتے تھے ، مغزّل ہوگئے !!
حامد ہوکے غزلیں بولتے ہیںغزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
مغزل ہوئے ہیں وہ محمود ہوکر
میں حامد ہوں ان کا مجھے ساز دینا
اللہ بچائے مرے استاذ گرامیمحمود ہو گئے ہیں مغزل تو ڈر یہ ہے
اعجاز عاجز اور مخل ہوں نہ پھر خلیل
فاتح کو آپ نے کبھی مفتوح کر دیا
یوں عالی جی بھی ہو نہ کہیں جائیں پھر علیل؟
بے شک کہ پریشان کئے جائے غٹرغوںلفظوں کا پھیر کتنا پریشان کن ہے یار
استادِ محترم نے ہیں گنوائے لفظ چار
عالی جی پانچویں ہیں جو پھر ہوگئے علیل
خالی ہوئے، مخل ہوئے یعنی ہمیں خلیل
ہائے میاں خلیل تری بات کی خوشبوبھائی نبیل آگئے اک بار بزم میں
اب کوئی شک نہیں ہے ہمیں ان کے عزم میں
ہم کو کہا خلیل تو خود ہوگئے قتیل
عاقل ہیں عقلِ کل ہیں ، اور ہیں وہی عقیل
نہ دعویٰ میر جیسا ہم کریں گےزبانِ میر سمجھے اور کلامِ میرزا سمجھے
مگر فیصل کا لکھا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
کبابوں کو تو ہم سمجھے ، وہی جو ہم بھی کھاتے ہیں
مگرآگے جو ہے اسکو کوئی سمجھے تو کیا سمجھے
انتظامی ذمہ داری اب نداردابن سعید بیٹھے ہیں چپ چاپ بزم میں
گو کام سارے کرتے ہیں خود آپ بزم میں
اور منتظم ہیں، پر یہ نہیں نظم کہہ چلیں
حالانکہ ایسے لوگ ہیں کمیاب بزم میں
اتنا بھی نہیں آساں دو راہ و یک سفراک ساتھ نہ ہو پاتے ہیں نظم اور نظامت
ڈر جاتے ہیں ہم دیکھ کے اشعار کی قامت
شبنم بھی یہاں خوشبو بھی شعلہ بھی دھواں بھی
تک بندِ سرا سر کو بلا لائی ہے شامت
مختصر نویسی کا شہکار کہیں گے
عزم و ہمت اک سفر ہےیہ تو آپ کی نظر کرم ہے
ورنہ عزم کہاں اپنا دھرم ہے
کیسی عقل اور کہاں کے عقیل
بس رکھا خدا نے اپنا بھرم ہے
شکریہ آپ کا یہ راز کھولاویسے تو شاعرہ ہیں، غزل ناز آپ ہیں
یہ کیا کہ چند پھولوں پہ موقوف ہوگئیں
صنفِ لطیف آپ ہیں محفل کی جان ہیں
خاموش صنف آج تو موصوف ہوگئیں
مجھ کو اچھا لگا دوا داروایسا تُک بند ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
آپ ابنِ سعید شاعر ہیں
کام کچھ بھی کیا کرے کوئی