12 سے 15 تک
قلعہ رائے پتھورا
جبکہ تنورون کو قوم سے دلی کی حکومت جاتی رہی اور چوہانوں کے پاس پونچی اور اے پتھورا راجہ ہوا اوسنے سمت 1200 ایک ہزار دو سو بکراجیت مطابق 1143 عیسوی موافق 538 ہجری میں یہ قلعہ بنایا اگرچہ اس زمانے میں یہ قلعہ بالکل منہدم ہوگیا ہے لیکن کہیں کہیں ٹوٹی پھوٹی فصیل باقی رہ گئی ہے یہ قلعہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا ہے اور اسکے گرد پہاڑوں میں خندق بنائی تھی اوراس خند میں تمام جنگلوں کا پانی گھیرا کر ڈالا تھا کہ بارہ مہنے اسمین پانی رہتا تھا اب بھی کہیں کہیں پانی کے رکاؤ کے بندپائے جاتے ہیں دیوار غربی اس قلعہ کی کچھ کچھ قائم ہے اور اسی طرف کی خندق بھی باقی ہے اور غزنیں دروازے کا بھی ڈھیر معلوم ہوتا ہے میں نے اس طرف کی دیوار کو اسطرلاب کے عمل سے ناپا تو پینسیٹھ فٹ بلند حندق کی زمین سے پیمایش میں آئی معلوم نہیں کہ اس سے اور کسقدربلند تھی جو ٹوٹ گئی اس قلعہ کی فیصیل کا آثار بہت چوڑا ہے پہلے تو خندق کیطرف سے فصیل اور برج چنے ہیں اور جہاں اوسکی اونچائی قلعہ کی زمیں کے برابر ہوگئی ہے وہاں سے شترہ فٹ عرض چھوڑ کر اکیس فٹ کے آثار سے دیوارچپنی شروع کی ہے اور پھر قلعہ کی طرف گیا رہ فٹ کا آثار چھوڑ کر آٹھ فٹ کے آثار سے دیوار چنی ہے اور یقین ہے کہ اسی دیوار پر کنگورے بھی ہونگے یہ قلعہ ایک مدت تک دارالخلافت مسلمان بادشاہوں کا بھی رہا ہے چنانچہ سلطان
13
قطب الدین ایبک اور سلطان شمشالدین التمش بھی اسی قلعہ میں رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔ہجری مطابق 1289 عیسویں جب سلطان جلال الدین فیروز خلجی نے کیلوکھڑی کے پاس نیا شہر آباد کیا تو یہ شہر پُرانی دلی کے نام سے مشہور ہوا چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سلطان جلال الدین فیروز خلیجی سے دلی کے ریسوان نے بعیت کی تو شہر سے لاکر پُرانی دلی میں الگے بادشاہوں کی تختگاہ میں تخت پر بٹھایا اور اس زمانے کے اگلے بادشاہوں کی تختگاہ قصرسفید تھا جو راے پتھورا کے قلعہ میں سلطان قطب الدین ایبک نے بنایا تھا اس تمہید سے ثابت ہوا کہ توزک تیموری میں جب قلعہ کو دہلی کہنہ لکھا ہے وہ یہی قلعہ ہے۔
غزنین دروازہ
اس قلعہ کی جانب غرب میں ایک بہت بڑا درازہ تھا معلوم نہیں کہ راجہ پتھورا کے وقت میں اوسکا کیا نام تھا مگر مسلمانوں کے وقت میں اوسکو غزنی دروازہ کہتے تھے اسو اسطے کہ غزنی کی فوج اسی دروازے سے اس قلعہ میں داخل ہوئی تھی اس درازے کے سوا اس قلعہ کے نوعرازے اور تھے
قصر سفید
اس قلعہ رائے پتھورا میں سلطان قطب الدین ایبک نے اپنے زمانہ بادشاہت میں جو 602 ہجری مطابق 1205 عیسوی سے شروع ہوا تھا ایک محل بنایا اور اسکا قصر سفید نام رکھا اور یہ وہی قصر ہے جسمیں ملک اختیار الدین الستگین رزیر
14
الدین بہرام شاہ کا عین دربار کیوقت 639 ہجری مطابق 1241 عیسویں ماراگیا اور اسی قصرمیں سلطان ناصر الدین محمود بن شمس ادلین تخت پر بیٹھا اور اسی قصر میں سلطان ناصر الدین کے وقت میں 658 ہجری مطابق 1259 عیسوی میں ہلاکو خان کا ایلچی آیا اور اوسکی ملازمت کے وقت میں اتنا بڑا اور بار ہوا کہ چشم ملک نے بھین ہ دیکھا ہوگا اور اسی قصرمیں سلطان غیاث الدین بلبن تخت پر بیٹھا مگر اب اس قصر کا نشان نہیں پایا جاتا
کوشک لال
اس کوشک کو سلطان غیاث الدین بلبن نے اپنے بادشاہ ہونے سے پہلے بنایا تھا اور جب وہ بادشاہ ہوا تو اسی کو شک کے پاس قلعہ مرزغن بنایا تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب سلطان جلال الدین فیروز خلجی سے دل کے رئیس موفق ہوگئے اور کیلو کھڑی میں سے لاکر پُرانی دلی کے تخت پر بھٹا یا تو بادشاہ وہاں سے کوشک لال میں آیا اور اوسکے دروازے پر سے پیادہ پاہوا امر انے عرض کیا کہ آپ سواری پر سے کیوں اوترتے ہیں سلطان نے کہا کہ یہ کوشک میرے آقا سلطان غیاث الدین بلبن کا بنوایا ہوا ہے کہ اوسنے بادشاہ ہونے سے پہلے بنایا تھا مجھے لازم ہے کہ جو ادب اوسکا اوس زمانے میں کرتا تھا اب بھی کروں اس تمہید سے معلوم ہوا کہ یہ کوشک 664 ہجری مطابق 1265 عیسوی سے دس پانچ برس پہلے کا بنا ہوا ہے مگر بادشاہ ہونے کے بعد بھی پھر بادشاہ اکثر اسی کو شک میں رہتا تھا اور جس زمانے میں
15
اوسکو شکار کا شوق ہوا ہے پہر رات رہے سے اسی کو شک میں سے سوار ہوتا تھا اور سلطان علاالدین خلیجی کو شک سیری بنانے سے پہلے اسی کو شک میں رہتا تھا اور سلطان غیاث الدین تغلق شاہ اسی کو شک میں تخت پر بیٹھا تھا اس کو شک کے عمارت کی تفصیل کسی کتاب میں نظر نہیں پڑی کہ کس قطع کی عمارت تھی لیکن اب اسمیں کچھ شک نہیں رہا کہ سلطان جی کی درگاہ کے پاس لال محل کر کر جو عمارت مشہور ہے یہ اسی کو شک میں کا ایک ٹکڑا ہے یہ محل بہت خوشنما نرا سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے ستوں لگا کر دو منزلہ عمارتیں بنائی ہیں لیکن اب بہت خراب ہے اور دن بند اور خراب ہوتا جاتا ہے اس محل میں چند قبریں بھی بن گئی ہیں اور اس سبب سے بڑا شبہہ پڑا تھا کہ شاہد یہ عمارت کو شک لالا نہ ہو مگر اب یہ شبہہ نہیں رہا اور ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب یہاں قبر ستان بننا شروع ہوا تو رفتہ رفتہ لوگوں نے اس محل میں بھی ویران پڑا تھا قبریں بنا دیں
قلعہ مرزغن
بعد اسکے جب سلطان غیاث الدین بلبن بادشہ ہوا تو اوسنے 666 ہجری مطابق 1267 عیسوی میں اوسی کو شک لال کے پاس ایک قلعہ بنایا اور اوسکا مرزغن نام رکھا کہ اب غیاث پور کر کر مشہور ہی اور سلطان المشایخ نظام الدین اولیاں کا وہیں مزار ہے لکھا ہے کہ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں یہ دستور تھا کہ جو مجرم