ش
شہزاد احمد
مہمان
کافی سے زیادہ متفق!اختلافی باتیں بہت کم ہیں۔۔۔ مشتر کات بہت زیادہ ہیں۔
مشترکات ہی معیار ٹھہرایا جائے۔
کافی سے زیادہ متفق!اختلافی باتیں بہت کم ہیں۔۔۔ مشتر کات بہت زیادہ ہیں۔
مشترکات ہی معیار ٹھہرایا جائے۔
کرپٹ انتخابی نظام میں اصلاحات لا کر منصفانہ اور عادلانہ انتخابی نظام کا قیام ہی مصطفوی انقلاب کا ایک جزو ہے۔سلامت رہیں نظامی صاحب ۔۔۔ آپ نے تو کمال کر دیا! لیجیے ۔۔۔ ہم بھی نعرہ لگا لیتے ہیں ۔۔۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔۔۔ مصطفوی انقلاب زندہ باد ۔۔۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ علامہ صاحب نے تو "ایجنڈے" میں یہ "نعرہ" شامل ہی نہیں کیا ۔۔۔ شاید چودہ جنوری کو ان کی زبانِ مبارک سے یہ نعرہ سننے کو ملے!
کاش طاہرالقادری صاحب بھی یہ "وضاحت" فرما دیتے ۔۔۔ ان کا یہ "جملہ" سننے کے لیے تئیس دسمبر سے بارہ جنوری تک بیشتر وقت ہم ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے رہے ۔۔۔ ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایک بار بھی "مصطفوی انقلاب" لانے کی بات نہ کی ۔۔۔ اس میں بھی کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی!کرپٹ انتخابی نظام میں اصلاحات لا کر منصفانہ اور عادلانہ انتخابی نظام کا قیام ہی مصطفوی انقلاب کا ایک جزو ہے۔
یہ جملہ وہ 23 دسمبر کے مینار پاکستان کے جلسہ سے ایک دن قبل میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں۔ اور یہ سوال بھی ان سے ہوا تھا۔کاش طاہرالقادری صاحب بھی یہ "وضاحت" فرما دیتے ۔۔۔ ان کا یہ "جملہ" سننے کے لیے تئیس دسمبر سے بارہ جنوری تک بیشتر وقت ہم ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھے رہے ۔۔۔ ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے ایک بار بھی "مصطفوی انقلاب" لانے کی بات نہ کی ۔۔۔ اس میں بھی کوئی حکمت پوشیدہ ہو گی!
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:جی جی ہمارے عقیدے میں۔۔ ہمیں اس بات کا یقین ہے
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
بہت شکریہ، جوابی مراسلات کو بھی ختم کر دیجیے۔میرے خیال میں ہم اپنی رائے دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کی بجائے اس کے محض اظہار پر اکتفا کریں تو بہتر ہوتا ہے ۔ چند مراسلات میں جس قسم کی گفتگو ہو چکی ہے وہ کسی طور بھی سنجیدہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔
واہ!سیاست میں دین ۔۔۔ ۔ الگ بات ہے
اور دین میں سیاست کا عنصر اور بات ہے
اسلام کا مطلوب و مقصود تو یہی ہے کہ سیاست کو دین کا تابع بنایا جائے جس کے نتیجے میں خلافت راشدہ کا قیام ہوتا ہے
اور جب دین کو سیاست کا تابع بنایا جاتا ہے تو پھر خلافت راشدہ "ملوکیت" میں بدل جاتی ہے۔
خیر ہمیں اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ سیاست سے دین کو جدا نہ کیا جائے ۔۔۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ مروجہ سیاست دین سے بالکل جدا ہے
ایک ہی بات ہے۔ آپ دین کو سیاست کا تابع کر دیں یا سیاست کو دین کا۔ دونوں صورتوں میں مولویان اسلام کا ’’تابع‘‘ ہونا پڑتا ہے۔اسلام کا مطلوب و مقصود تو یہی ہے کہ سیاست کو دین کا تابع بنایا جائے جس کے نتیجے میں خلافت راشدہ کا قیام ہوتا ہے
اور جب دین کو سیاست کا تابع بنایا جاتا ہے تو پھر خلافت راشدہ "ملوکیت" میں بدل جاتی ہے۔
مفاد اپنے اپنے! یہی ہے پاکستانی ’’قومیت‘‘۔اور دوسری طرف اسلام آباد کے تاجروں نے دہائی دی ہوئی ہے کہ لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
’’لیڈر‘‘ نڈر ہوتا ہے۔ ایسی بلٹ پروف بگتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر عوام کی قربانیوں کو استعمال کرنے والے لیڈر نہیں ہوتے!وقت وقت کی بات ہے۔ آج کے حالات کے پیش نظر اگر کوئی لیڈر بلٹ پروف گاڑی استعمال کرتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
ہمارے موجودہ لیڈرز میں عمران خاں واحد لیڈر ہے جو نڈر ہے لیکن ہم تو اس کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں؟’’لیڈر‘‘ نڈر ہوتا ہے۔ ایسی بلٹ پروف بگتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر عوام کی قربانیوں کو استعمال کرنے لیڈر نہیں ہوتے!
عوام بالکل تیار ہے۔ خاص کر پاکستانی جوان جو کہ اکثریت ہے عمران خان کو ووٹ دینے کیلئے بے تاب ہے۔ اگر یہ قادری کا لُچ درمیان میں نہیں تُلتا تو عمران خان کبھی بھی عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا تھا۔ کوئٹہ میں ہونے والے بد ترین دہشت گردی کی واردات کے بعد سوائے عمران خان کے اور کوئی نہیں وہاں پہنچا!ہمارے موجودہ لیڈرز میں عمران خاں واحد لیڈر ہے جو نڈر ہے لیکن ہم تو اس کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں؟