طلبہ یک جہتی مارچ: شعور و آگہی کا ایک عہد روشن ہوا چاہتا ہے
30/11/2019 سید مجاہد علی
ملک بھر کے درجنوں شہروں میں گزشتہ روز طالب علموں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے مظاہرہ کیا۔ اگرچہ ان مظاہروں کا بنیادی مقصد سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کہا جارہا ہے لیکن وسیع طور پر منعقد ہونے والے اس احتجاج سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ملک کی نوجوان نسل قومی معاملات میں شنوائی نہ ہونے اور عام طور سے پائی جانے والی گھٹن کے خلاف آواز بلند کررہی ہے۔ نوجوانوں کی اس آواز کو سمجھنے اور سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت عراق، لبنان اور ہانگ کانگ میں نوجوانوں کی اسی قسم کی تحریکیں موجود ہیں جو نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان سب ملکوں میں نوجوان مظاہرین نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لبنان اور عراق کے وزرائے اعظم اس احتجاج کے نتیجہ میں مستعفی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی بھی تحریک کی کوئی واضح قیادت موجود نہیں ہے لیکن مسائل کی سنگینی اور ٹیکنالوجی کی دستیابی کے سبب مظاہرین کو رابطہ کرنے اور اپنی بات سامنے لانے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان کی حکومت اور ارباب اقتدار کو بھی نوجوانوں کے احتجاج سے سبق سیکھنے اور معاملات ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اندیشہ ہے کہ سیاسی گرداب میں پھنسی حکومت اور اپنے ہی نعروں کے اسیر وزیر اعظم شاید بروقت نوجوانوں کی بے چینی اور اس اضطراب کی سنگینی کو سمجھنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال وسیع المدت تناظر میں تشویشناک اور ملکی مفادات کے برعکس ہو گی۔
نوجوانوں اور بنیادی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والے ان لوگوں کے احتجاج کو ملک کی عمومی سیاسی صورت حال، اقتدار و اختیار کی جنگ، نفرت کے ماحول، مہنگائی اور میڈیا پر نت نئی پابندیوں کی روشنی میں بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ ہر معاشرے کو کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کثیر آبادی اور محدود وسائل کہ وجہ ان مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان مسائل کا کوئی آسان حل موجود نہیں ہوتا لیکن اگر انہیں حل کرنے کے لئے مکالمہ کا حق حاصل ہو، مختلف آرا کو سامنے لانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو اور لوگوں میں کم از کم یہ احساس موجود ہو کہ انہیں حکمرانوں کے سامنے بات کہنے اور مسائل پر رائے دینے کا موقع مل رہاہے تو مسائل کی شدت کے باوجود افہام و تفہم اور مواصلت کی صورت حال تصادم کو روکنے میں معاون ہوتی ہے۔ گزشتہ روز نوجوانوں اور شہری حقوق کے لئے سرگرم لوگوں کے احتجاج سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے پر قدغن مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اب لوگ اس گھٹن کے ماحول کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
پاکستان میں حکمرانی کا نظام نادیدہ قوتوں کے پاس گروی ہے۔ جمہوری حکومت پارلیمنٹ کی بجائے فوج کی اعانت اور اس کے سربراہ کی سرپرستی کو اپنی کامیابی کا بہترین راستہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے جو مباحث سامنے آئے ہیں اور حکومت نے اس پر جورویہ اختیار کیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ریاست اپنے ایک نادرست فیصلے پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اداروں کی خود مختاری کا نعرہ لگانے کے باوجود حکومت کو ناقصل العقل عناصر کے حوالے کردیا گیا ہے۔
ملک کے وزیر اعظم جمہوریت کی بنیادی تفہیم سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی ذاتی دیانت و ذہانت ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے کافی ہے۔ عمران خان نے چونکہ یہ طے کرلیا ہے کہ اس ملک میں صرف وہی ایماندار اور باقی سب بدعنوان ہیں لہذا وہ حکومتی اختیار کو آمرانہ طرز عمل سے برتنے پر اصرار کرتے ہیں حالانکہ یہ اختیار انہیں عوام کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی صورت میں عطا کیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے لئے 19 اگست کو جاری ہونے والا حکم نامہ جسے وزیر اعظم نے اپنے لیٹر پیڈ پر جاری اور نشر کیا دراصل عمران خان کے ہوس اقتدار اور گھمنڈ کی بدصورت تصویر سامنے لاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پوری کابینہ اور سرکاری مشینری میں کوئی بھی وزیر اعظم کو یہ بتانے کے اہل نہیں تھا کہ آرمی چیف کی تقرری یا ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت سمری کی صورت میں کابینہ سے منظور کروایا جاتا ہے، پھر صدر مملکت اس پر حکم جاری کرتے ہیں۔
لیکن 19 اگست کو وزیر اعظم کے حکم نامہ کی صورت میں جاری ہونے والا کاغذ کا یہ پرزہ دراصل عمران خان کے مزاج، ذاتی صلاحیت پر غیر ضروری اعتماد اور نظام کو غیر اہم سمجھنے کے مزاج کا شاہکار کہا جا سکتا ہے ۔ انہیں کسی سے رائے لینے یا کسی کی رائے سننے کی حاجت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظام کی اصلاح کے لئے تبدیلیاں لانا اور نظم حکومت کے اصولوں و طریقہ کار کو نظرانداز کرنا، دو مختلف باتیں ہیں۔
حکومت اور اس کے سربراہ کے اسی مزاج کی وجہ سے ایک جمہوری دور میں بھی میڈیا کو پابند کرنے اور اس پر نت نئی قدغن عائد کرنے کا طریقہ بہتر حکمرانی کے لئے ضروری سمجھا جارہا ہے۔ طالب علموں اور نوجوانوں کے احتجاج سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اظہار کا ایک راستہ بند کیا جائے تو وہ اس کے دوسرے طریقے اختیار کرلیتا ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت اور ہوشمند حکمران، معاشرے میں ایسی صورت حال پیدا نہیں کرتا کہ لوگوں کو اپنی بات کہنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑے۔
پاکستان میں نہ صرف میڈیا ہاؤسز کو پابند کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ خبر، نقطہ نظر اور رائے کے اظہار پر نت نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں بلکہ ففتھ جنریشن وار کی غیر واضح اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کرنے والوں پر ملک سے غداری کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ آرمی چیف کے معاملہ پر غور کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی اس قسم کی الزام تراشی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ نفرت اور کم فہمی کا ماحول اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ معاملات و حالات کی پوری تصویر دیکھنے اور انہیں مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کا مزاج ختم ہوگیا ہے۔
ملک پر ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جو اپنے ہی اصولوں، نظریات اور منشور سے انحراف کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی مدد سے چلائی جارہی ہے جن پر کل تک وزیر اعظم خود تند و تیز تنقید کیا کرتے تھے۔ یا ٹی وی مباحث میں ان پر عوام دشمنی کے فتوے صادر کرتے تھے۔ اب وہی عناصر ان کا دایاں اور بایاں بازو ہیں۔ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے اور اس کی صفوں میں ایسا قحط الرجال ہے کہ سپریم کورٹ میں جنرل باجوہ کی وکالت کے لئے ملک کے وزیر قانون کو استعفی دینا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ میں ان کی کارکردگی حکومت کے لئے ٹھٹھے کا سبب بنی لیکن سماعت ختم ہوتے ہی فروغ نسیم کو دوبارہ وزیر قانون بنادیا گیا۔ گویا عمران خان کی حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں نہ تو کوئی وکیل آرمی چیف کا مقدمہ پیش کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی کوئی ایسا عالی دماغ موجود ہے جو فروغ نسیم کی جگہ وزارت قانون کا انتظام سنبھال سکے۔
تکبر، غیر جمہوری طریقوں، واضح پالیسی کی عدم موجودگی کے علاوہ سامنے آنے والی نا اہلی کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اگر اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی فوری کوشش نہیں کرتی تو آنے والے دنوں میں ملکی معاملات میں مزید خرابی پیدا ہو گی۔ اس کا ایک امتحان تو آرمی چیف کے عہدہ کی تقرری کے بارے میں قانون سازی پر پارلیمنٹ میں ہوگا لیکن اس سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے سوال پر حکومتی طرز عمل بھی اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا عمران خان اب بھی فوج کی طاقت کے سہارے ہی حکومت چلانا چاہتے ہیں یا یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ انہیں پارلیمنٹ میں خوشگوار ماحول پیدا کرکے، اپوزیشن کے ساتھ مواصلت کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
فی الوقت وزیر اعظم کے بیانات اور طرز عمل سے کسی قسم کی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے تجاویز دے دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ سربراہ 6 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ اس سے پہلے سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ارکان مقرر کرنے کا معاملہ وزیر اعظم کے گھمنڈ اور ناقص حکمت عملی کے سبب التوا کا شکار ہے۔
طلبہ یکجہتی مارچ نے واضح کیا ہے کہ ملکی رائے عامہ غیر جمہوری طریقہ کار کے خلاف استوار ہو رہی ہے۔ متعدد مبصرین حکومت سازی اور امور مملکت میں عسکری اداروں کی مداخلت کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کے باوجود، عوامی مسائل میں جس طرح اضافہ ہؤا ہے، اس کی وجہ سے اب جمہوریت کے لئے رائے طاقت ور ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج نے بھی براہ راست اقتدار سنبھالنے کی بجائے اپنی پراکسی پارٹی کے ذریعے حکومت چلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایک تو اس طریقہ کے سب خد و خال نمایاں ہوگئے ہیں۔ دوسرے تحریک انصاف جس طرح اہم شعبوں میں ڈیلور کرنے میں ناکام ہوئی ہے، اس سے اب یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس ناکامی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
فوج اور اس کے سربراہ تادیر اس سوال کا سامنا کرنے سے گریز نہیں کرسکتے۔