سیما علی
لائبریرین
سچ کہا بھیا۔۔۔۔ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
سچ کہا بھیا۔۔۔۔ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ضرور لکھیں گے ان شاء اللّہ عاشور کے بعد کوشش کیونکہ ہم میں اور نور میں جو بہت واضع فرق ہے وہ یہ کہ ہم نا شاعر ہیں نا لکھاری یہ تو کچھ آپ لوگوں کے ساتھ رہ کے کوشش جاری ہے ۔۔۔بس آپ سب کی محبت ہے جو کچھ لکھواتی ہے ۔۔۔۔۔میں ان سے ان کی شاعری پر لطیف سوال کرتی اور سوال ممکن نہ ہوتے تو ان کے انداز و گفتار و اطوار کو قلمبند کرتے، ان کی شبیہ و عکس و نقوش کے بارے میں اک خیال پیش ہوتا .ان کے جذبات کی رو کس شعر پر زیادہ ہوجاتی ...وہ احوال میں بتاتی
مگر ملاقات ہوتی تو
ایسا کچھ اگر ممکن ہو لکھنا تو لکھیے گا
محرم کے حوالے سے خاص پیغام؟
*شیعہ؟ سنی؟ وہابی؟ دیوبندی؟ بریلوی؟ مسلمان
محترمہ قرۃ العین حیدر کو پڑھنا شروع جب پوری طرح اُنکی تحاریر ہمارے سر پر سے گذر جاتیں پر آہستہ آہستہ جوں جوں سمجھ میں آنے لگیں اُن میں گم رہنے لگے ۔انکے افسانوں میں زندگی رکتی نہیں بلکہ تیزی سے رواں ہے انکا فکشن پڑھنے کا اپنا لطف ہے آگ کا دریا ہم نے بار بار پڑھی اور دل نہیں بھرایہی حال افسانوں کا ہے ۔۔ٹائمز لندن‘ نے اپنے ادبی صفحات میں لکھا ’اُردو فِکشن میں ’آگ کا دریا‘ کی وہی حیثیت ہے جو ہسپانوی ادب میں ’تنہائی کے سو برس‘ کی‘ہے ۔۔
پاپولر فکشن کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟افسانوی مجموعہ ’ستاروں سے آگے‘ ہمارا ٌآل ٹائم فیورٹ ۔۔۔عصمت چغتائی ،واجدہ تبسم ،جیلانی بانو،اے آر خاتون ۔رضیہ بٹ،پھر بشریٰ رحمنٰ،عمیرہ احمد،کو چاٹ ڈالا ا
محترمہ قرۃالعین حیدر جستہ جستہ کس طرح گوتم نیلمبر کے ذہنی ارتقا کی تصویر کشی کرتی جاتی ہیں بغیر ناول کے اندر داخل ہوئے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ زندگی اور وہ بھی انسان کی زندگی آگ کے دریا سے ہوکر گزرتی ہے یا دوسرے الفاظ میں آگ کا دریا انسان کی زندگی میں داخل ہوکر اپنی موجوں میں بہا لے جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا اس میں آزادی، اختیار، جبر کے مسائل اٹھانے کے فوراً بعد تاریخ، ناموں کا تسلسل اور زمان و مکاں کے نظریات انتہائی ڈرامائی توانائی کے ساتھ پڑھنے والوں کے سامنے لائے گئے ہیں۔ یہ مسائل اور نظر یات اتنے گھمبیر ہیں کہ کسی ایک پر لکھنے بیٹھو تو اچھا خاصا طول (تھیسس) تحریر کرنا پڑے گا۔ ’’آگ کا دریا‘‘ اپنے پڑھنے والوں کو باتوں باتوں میں اور نہا یت ہی ہلکے پھلکے انداز میں علم، حکمت اور دانش مہیا کرتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ میں داستان گوئی کا ذکر بھی موجود ہے کیوں کہ داستان گوئی عوامی زندگی میں شامل تھی۔آگ کا دریا اور تنہائی کے سو برس کا تھیم اک جیسا ہے؟ آگ کا دریا میں پڑھ نہیں سکی، شاید نیٹ سے کتاب پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. قراہ کو کلاسیکی ادباء میں شمار کیا جاسکتا ہے. آپ نے ان کو بارہا پڑھا ہے تو کوئی "بہترین جملہ " یا اقتباس یا بات جو شئیر کرنا چاہیں
بالکل درست فرمایا اُستادِ محترمکمال کے بھی مختلف اوتاروں پر غور نہیں کیا؟ ہندوستان آئے ہوئے عرب سے لے کر ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین تک( جس میں بنگلہ دیش کی بھی کچھ بھنک محسوس ہوتی ہے ) اور ماڈرن آزادی کے بعد کے کمال تک! چمپا کی طرح یہ کردار بھی غور کرنے کے قابل ہے!
میرا ناولٹ پڑھا؟ 'مائل بکرم راتیں' کی محرک عینی آپا ہی تھیں۔ 1972ء میں اپنی سکالر شپ کے پیسوں سے آگ کا دریا خریدا تھا اور پڑھا تھا، اور شاید یہ ناول 1973، 1974ء میں شروع کیا تھا اور اس وقت بنگلہ دیش تازہ تازہ ہی بنا تھا تقریباً۔ اسے میں آگ کا دریا کا سیکویل ہی مانتا ہوں، وہی وقت اہم ترین کردار، اور اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناولبالکل درست فرمایا اُستادِ محترم
ابوالمنصور کمال کا المیہ یہ رہا کہ علامتی اور عملی طور پر مسلمانوں کی ہندوستان آمد، حکمرانی، تہذیب کے عروج و زوال اور پھر دل شکستگی کے ساتھ وہاں سے نکل کر پاکستان آمد کے تمام اجتماعی المیے کو وہ بھگتتا ہے۔
ابوالمنصور کمال جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہے اول تا اخیر ناآسودہ ہی رہتے ہے۔ حالانکہ وہ بہت پڑھے لکھے ہے اور بڑے بڑے سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان نے پاکستان جاکر یعنی سب سے بچھڑ کر ایک نئے مضطرب اور ناسٹلجیا کے مارے ہوئے انسان کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ اس کے لئے کتنا دل دکھانے والا جملہ دیا گیا ہے۔ کمال کس طرح ہندوستان میں داخل ہوا تھا اور کس طرح وہاں سے نکل گیا!!!!
ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین (بالکلبنگلہ دیش کی بھی بھنک محسوس کی جاسکتی ہے ))
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگ کا دریا، کا مرکزی خیال ہی وقت ہے جس کی چھتری تلے انسان جبر و قدر کے تحت آیا تھا، آرہا ہے اور آتا رہے گا۔۔
وقت کی چھتری تلے گزرتے، زمانوں میں وہ بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔عیش و عشرت کا عرصہ خواب کی طرح گزرجائے گا۔ انسانوں کا جلوس اپنے اپنے کردار ادا کرکے اپنی اپنی قبروں میں اتر تا رہے گا۔ مرگھٹ حیات کی اصلیت ہے۔۔۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ اُستادِ محترم پہلی فرصت میں پڑھتے ہیں پنجند پر دستیاب ہیں ۔۔۔۔۔اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناول
برقی کتابیں میں
پنجند پر
دستیاب ہے، شاید محفل میں بھی شامل کیا تھا۔
برقی کتابیں بھی شاید فعال نہیں ہے اس وقت، کیا دوسروں کو پرانی برقی کتابیں رسائی دے رہی ہیں؟
اُستادِ محترم شروع کردی پڑھنا یہ کہانی ہم اماّں سے بار بار سنتے یہ کہانی کیا یاد دلا دیا آپ نے ہماری لاڈلی اماّں ۔۔۔۔۔۔۔میرا ناولٹ پڑھا؟ 'مائل بکرم راتیں' کی محرک عینی آپا ہی تھیں۔ 1972ء میں اپنی سکالر شپ کے پیسوں سے آگ کا دریا خریدا تھا اور پڑھا تھا، اور شاید یہ ناول 1973، 1974ء میں شروع کیا تھا اور اس وقت بنگلہ دیش تازہ تازہ ہی بنا تھا تقریباً۔ اسے میں آگ کا دریا کا سیکویل ہی مانتا ہوں، وہی وقت اہم ترین کردار، اور اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناول
برقی کتابیں میں
پنجند پر
دستیاب ہے، شاید محفل میں بھی شامل کیا تھا۔
برقی کتابیں بھی شاید فعال نہیں ہے اس وقت، کیا دوسروں کو پرانی برقی کتابیں رسائی دے رہی ہیں؟
واہ زبردست ۔ ۔ !تھوڑا پہلے بھی لکھ چکے تھے لیکن کچھ جلدی میں لکھا اس لئے تشنگی باقی تھی ۔۔۔
اُردو بہت جلد پڑھنا شروع کی جہاں تک یاد ہے سات سال کی عمر سے بچوں کی کہانیاں پڑھنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔ہمدرد نونہال سے شروعات اب بھی یاسم اورصارم بھی پڑھتے ہیں تو ہمارا دل بہت خوش ہوتا ہے ۔۔اردوکے چاہنے والوں میں ماہنامہ ہمدرد نونہال سے کم ہی لوگ ہونگیں جو بچوں کے اس رسالے واقف نہ ہو۔۔۔۔۔ تقریباً 70 سال سے اردو میں بچوں کے ادب کی خدمت کررہا ۔۔۔ یہ رسالہ اردو زبان کی لغت سے کم حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی کہیں پڑھا تھا کہ اب انگریز ی بھی شائع ہورہا ہے ۔۔اگر صرف اردو میں رہتا تو بہتر تھا اا بہانے بچوں میں اُردو پڑھنے کا شوق پروان چڑھتا رہے تو بہتر ہے پر شاید یہ وجہ ہو کہ جن بچوں کو اُردو پڑھنا مشکل لگتا ہو اُن میں بھی شوق پیدا ہو۔۔۔
جب ہم بچے ایک ساتھ بیٹھ کر کہانی سنتے تھے اپنی اماّں سے تو سننے کے دوران کہانی کے وقوعات اور اس کے کرداروں کو تصور کرنے سے کہانی میں ہماری دلچسپی بڑھ جاتی تھی ۔۔بچوں کے ناول۔ جن میں ’’عالی پر کیا گزری‘‘ اور ’’میرا نام منگو ہے‘‘ شامل ہیں۔ ’’عالی پر کیا گزری‘‘ ہماری بڑی پسندیدہ ناول تھی۔۔۔
داستانِ امیر حمزہ بار بار پڑھی اور ہر بار اتنا ہی لطف آیا اور اب بھی اگر موقعہ ملے تو پڑھ لیتی ہوں۔۔۔
روزنامہ کھلونا بھی اُس زمانے میں نکلتا تھا ۔اب تو بچوں کے لئے اتنے رسالے شاید نکلتے نہیں یا ہماری نظر سے نہیں گذرے ۔۔۔اور ساتویں جماعت سے اباّجان کی کتابوں کی طرف توجہ ہوئی تو
محترمہ قرۃ العین حیدر کو پڑھنا شروع جب پوری طرح اُنکی تحاریر ہمارے سر پر سے گذر جاتیں پر آہستہ آہستہ جوں جوں سمجھ میں آنے لگیں اُن میں گم رہنے لگے ۔انکے افسانوں میں زندگی رکتی نہیں بلکہ تیزی سے رواں ہے انکا فکشن پڑھنے کا اپنا لطف ہے آگ کا دریا ہم نے بار بار پڑھی اور دل نہیں بھرایہی حال افسانوں کا ہے ۔۔ٹائمز لندن‘ نے اپنے ادبی صفحات میں لکھا ’اُردو فِکشن میں ’آگ کا دریا‘ کی وہی حیثیت ہے جو ہسپانوی ادب میں ’تنہائی کے سو برس‘ کی‘ہے ۔۔۔۔
افسانوی مجموعہ ’ستاروں سے آگے‘ ہمارا ٌآل ٹائم فیورٹ ۔۔۔عصمت چغتائی ،واجدہ تبسم ،جیلانی بانو،اے آر خاتون ۔رضیہ بٹ،پھر بشریٰ رحمنٰ،عمیرہ احمد،کو چاٹ ڈالا اتنی ڈانٹ پڑتی اماّں کی کیا کھانا پینا اُڑھنا بچھونا سب یہی کتابیں ہیں کچھ اور سیکھنا ہے کے نہیں کورس کی کتابوں میں رکھ کر یہ ناولیں پڑھیں حد تو ہے چاند کی روشنی میں بھی کتابیں پڑھیں ۔۔۔۔۔
سیما آپا، استاد محترم کی روزانہ کی روٹین جان کر بے حد لطف آیا تھا۔ اس لیے یہ دل چاہا کہ آپ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ اپنا دن کیسے گذارتی ہیں۔
منتظر منتظر ۔ ۔اِس قدر جس پر گراں صبح کی بیداری ہے۔
ہمیں بھی شاعر مشرق کی طرح صبح سویرے اٹھ کر نسیم صبح اور طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہونا بے حد عزیز ہے ۔۔۔۔اور اُن سے نہ چھوٹا لندن میں بھی آداب سحرخیزی، سچ ہے بُری عادتیں نہیں چھوٹتیں یہ ذکر اُنھوں نے بارہا کیا ہے ۔۔۔۔
یہ عادت بھی ہمیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی ہم جب سے ہوش سنبھالا ہم فجر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے جاگ جاتے ہیں !!!!!ہمیں پرندوں کا اللّہ ھو اللّہ ھو کہنا بہت بھاتا ہے تازہ ہوا میں سانس لینا پروردگار اور اُسکیصناعی سے لطف اندوز ہونا ہمارا پسندیدہ ترین مشغلہ ہےمعصوم چڑیوں کاچہچہانا ہم سنتے ہیں اور انکی اپنی زبان تسبح کرنا ہمیں بہت سکون دیتا ہے ۔۔۔۔پھر وقتِ اذان ہوجاتا ہے نماز کے بعد ۔تلاوتِ کلامِ پاک ۔۔۔پھر والدین کے لئے بخشش کے دعا کرنا ۔۔۔۔۔
کچھ اذکار اور ذکرِ الہی کی کوشش ۔۔۔۔اس روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہم دنیا کے کسی کونے پر بھی ہوں تو یہی روٹین ہے !!!!لندن کی یخ بستہ سردی اور بارش میں بھی اُسی وقت اُٹھتے ہیں اور اسی طرح ۔۔۔بھائی کے پاس انڈونیشیا میں ہوں یا بیٹی کے پاس سنگاپور میں ہوں ۔۔پاکستان میں نماز کے بعد ہم اپنے پودوں کی دیکھ بھال پانی دینا تراش خراش اور صفائی ۔۔۔۔بالکنی کی صفائی ہمارا پسندیدہ مشغلہ ۔۔۔۔
پھر ہماری دو پڑوس کی سہیلیاں ہیں جو ہماری طرح صبح جلد بیدار ہوتیں ہیں ۔۔۔چہل قدمی کے لئے قریبی پارک آجاتے اور ایک گھنٹہ چہل قدمی کے بعد گھر واپس آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آجتک کے لئے بٹیا اتنا باقی پھر لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔