انٹرویو محترمہ سیما علی سے مصاحبہ

سیما علی

لائبریرین
میں ان سے ان کی شاعری پر لطیف سوال کرتی اور سوال ممکن نہ ہوتے تو ان کے انداز و گفتار و اطوار کو قلمبند کرتے، ان کی شبیہ و عکس و نقوش کے بارے میں اک خیال پیش ہوتا .ان کے جذبات کی رو کس شعر پر زیادہ ہوجاتی ...وہ احوال میں بتاتی
مگر ملاقات ہوتی تو
ایسا کچھ اگر ممکن ہو لکھنا تو لکھیے گا
ضرور لکھیں گے ان شاء اللّہ عاشور کے بعد کوشش کیونکہ ہم میں اور نور میں جو بہت واضع فرق ہے وہ یہ کہ ہم نا شاعر ہیں نا لکھاری یہ تو کچھ آپ لوگوں کے ساتھ رہ کے کوشش جاری ہے ۔۔۔بس آپ سب کی محبت ہے جو کچھ لکھواتی ہے ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
محرم کے حوالے سے خاص پیغام؟
*شیعہ؟ سنی؟ وہابی؟ دیوبندی؟ بریلوی؟ مسلمان

امام حسین ؑعلیہ السلام کے ذکر کے ذریعے انسان دوستی کا جو سبق بچپن سے سکھایا گیا ہمیں اپنے والدین سے اور جس غور و فکر کی جو ترغیب دی گئی ہمیں ہوش سنبھالتے ہی کہ ضرورت ہے امام کے پیغام کو سمجھنے کی ہے ۔
اب وہی انسانیت دوستی کہیں کھو گئی ہے ۔۔۔پروردگار سے دعا ہے کہ ہم ہر فرقے سے بالا تر ہو سوچنا افضل تر ہے ہم پہلے انسان پھر مسلمان اور پھر شیعہ سنی وہابی دیو بندی ہیں !کاش صرف انسان اور مسلمان بن کر سوچنا شروع کریں تو ہی آسانیاں بانٹ سکیں گے ۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے ضرورت ہے نبیؐ ﷺاور ان کی آل پاک کا یقین، صبر اور استقامت جو ان پاک ہستیوں کی عملی زندگی کا لازمی جز تھا !اُس سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہی ہے ان سے عقیدت کا اصل مقصد ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔ اللہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اپنے واجب کی حیثیت سے پہلے ذکر کیا۔۔۔ کیوں کہ وہ یہ جانتے ہں۔ اگر یہ دونوں فریضے ادا کیے گئے اور قائم ہوگئے تو سب فرائض خواہ نرم ہو یا سخت خود ادا ہوجائیں گے۔ یہ دونوں انسانوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور صاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے اور ظالموں کومخالفت پر آمادہ کرنے والے ہیں (تحفہ العقول صفحہ237)۔
امام حسین علیہ السلام نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ کلمہ محض زبانی اعتراف نہیں ہے۔ عبادتیں محض چند ارکان ادا کرلینے کا نام نہیں ہے۔ یہ کلمہ پورے معاشرتی انقلاب کا پیغام ہے جس انقلاب کی بنیادیں خدا نے اس طرح بیان کیں۔
ہر دم دعا ہے کہ پروردگار جو بھی بال برابر ہم نیکیوں کی کوشش کرتے ہیں انکے اجر کے عوض ہمیں کربلا والوں کے قدموں کی خاک میں ضرور جگہ عطا فرما دیں ۔۔۔۔۔آمین
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محترمہ قرۃ العین حیدر کو پڑھنا شروع جب پوری طرح اُنکی تحاریر ہمارے سر پر سے گذر جاتیں پر آہستہ آہستہ جوں جوں سمجھ میں آنے لگیں اُن میں گم رہنے لگے ۔انکے افسانوں میں زندگی رکتی نہیں بلکہ تیزی سے رواں ہے انکا فکشن پڑھنے کا اپنا لطف ہے آگ کا دریا ہم نے بار بار پڑھی اور دل نہیں بھرایہی حال افسانوں کا ہے ۔۔ٹائمز لندن‘ نے اپنے ادبی صفحات میں لکھا ’اُردو فِکشن میں ’آگ کا دریا‘ کی وہی حیثیت ہے جو ہسپانوی ادب میں ’تنہائی کے سو برس‘ کی‘ہے ۔۔


آگ کا دریا اور تنہائی کے سو برس کا تھیم اک جیسا ہے؟ آگ کا دریا میں پڑھ نہیں سکی، شاید نیٹ سے کتاب پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. قراہ کو کلاسیکی ادباء میں شمار کیا جاسکتا ہے. آپ نے ان کو بارہا پڑھا ہے تو کوئی "بہترین جملہ " یا اقتباس یا بات جو شئیر کرنا چاہیں
افسانوی مجموعہ ’ستاروں سے آگے‘ ہمارا ٌآل ٹائم فیورٹ ۔۔۔عصمت چغتائی ،واجدہ تبسم ،جیلانی بانو،اے آر خاتون ۔رضیہ بٹ،پھر بشریٰ رحمنٰ،عمیرہ احمد،کو چاٹ ڈالا ا
پاپولر فکشن کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟
لکھاری کو " قلم " بیچنا چاہیے؟
 

سیما علی

لائبریرین
آگ کا دریا اور تنہائی کے سو برس کا تھیم اک جیسا ہے؟ آگ کا دریا میں پڑھ نہیں سکی، شاید نیٹ سے کتاب پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے. قراہ کو کلاسیکی ادباء میں شمار کیا جاسکتا ہے. آپ نے ان کو بارہا پڑھا ہے تو کوئی "بہترین جملہ " یا اقتباس یا بات جو شئیر کرنا چاہیں
محترمہ قرۃالعین حیدر جستہ جستہ کس طرح گوتم نیلمبر کے ذہنی ارتقا کی تصویر کشی کرتی جاتی ہیں بغیر ناول کے اندر داخل ہوئے۔ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ زندگی اور وہ بھی انسان کی زندگی آگ کے دریا سے ہوکر گزرتی ہے یا دوسرے الفاظ میں آگ کا دریا انسان کی زندگی میں داخل ہوکر اپنی موجوں میں بہا لے جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا اس میں آزادی، اختیار، جبر کے مسائل اٹھانے کے فوراً بعد تاریخ، ناموں کا تسلسل اور زمان و مکاں کے نظریات انتہائی ڈرامائی توانائی کے ساتھ پڑھنے والوں کے سامنے لائے گئے ہیں۔ یہ مسائل اور نظر یات اتنے گھمبیر ہیں کہ کسی ایک پر لکھنے بیٹھو تو اچھا خاصا طول (تھیسس) تحریر کرنا پڑے گا۔ ’’آگ کا دریا‘‘ اپنے پڑھنے والوں کو باتوں باتوں میں اور نہا یت ہی ہلکے پھلکے انداز میں علم، حکمت اور دانش مہیا کرتا ہے۔ ’’آگ کا دریا‘‘ میں داستان گوئی کا ذکر بھی موجود ہے کیوں کہ داستان گوئی عوامی زندگی میں شامل تھی۔
چمپا جو ’’آگ کا دریا‘‘ کا ایک پراسرار کردار ہے، ایک ایسا کردار جو ناول کے کسی بھی دیگر کردار کی گرفت میں نہیں آتا اور نہ ہی پڑھنے والے کے فہم میں۔ وہ عورت ہے، عورت جو فریبِ نظر ہے، واہمہ ہے، علامت ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقتباس
(ص۔ ۲۴۴)
’’جنگِ آزادی‘‘ کے بعد کی ہندوستانی فضا میں ڈھل کر چمپاوت، چمپاوتی اور چمپابائی، چمپا احمد کے روپ میں ’’آگ کا دریا‘‘ کے قارئین کے سامنے آتی ہے۔


چمپا احمد کے والدین متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے گھر میں فون تھا نہ ہی فریج، معمولی مکان تھا، کوٹھی نہیں تھی۔ والد مراد آباد کے اور والدہ بنارس کی تھیں۔ والد بنارس میں معمولی وکیل تھے، مسلم لیگی تھے راجا صاحب محمود آباد بنارس آتے، وہ ان کے ہاں حاضری ضرور دیتے اور مسلم لیگ کی سیاست پر سطحی نوعیت کی باتیں کرتے۔ ان کے خیال میں مراد آباد کا پاکستان میں شمول یقینی امر تھا۔ البتہ بیگم کے اصرار پر بنارس کو بھی پاکستان میں شامل کرنے کے امکان کو رد نہیں کرتے۔ ان کے بھائی مرادآباد سٹی مسلم لیگ کے صدر تھے۔ چمپا احمد کی ددھیال سے ننھیال زیادہ خوش حال تھی۔ اس کے ایک ماموں لکھنؤ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ایک عالی شان کوٹھی لکھنؤ میں تھی۔ چمپا احمد کی عمر اٹھارہ سے تجاوز کرنے جارہی تھی۔ بنارس کے بسینٹ کالج میں پڑھتی تھی۔ چمپا احمدکی والدہ بیٹی کو کسی اعلیٰ سرکاری ملازم سے بیاہنے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ چناں چہ وہ چاہتی تھیں، ان کی بیٹی لکھنؤ میں اپنے ماموں کی کوٹھی میں رہے اور ازا بلاتھوبرن کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرے۔ ان کا خیال تھا کہ آئی ٹی کالج میں پڑھنے والی لڑکیوں سے آئی سی ایس کرنے والے لڑکے شادی کرتے ہیں۔ والدہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور یوں چمپا احمد آئی ٹی کالج اور لکھنؤ کے اعلیٰ طبقے کی لڑکیوں کے کراؤڈ میں اپنا داخلہ کرواتی ہے۔ اوّل اوّل چمپا کو مشکلات پیش آتی ہیں کیوں کہ ان پر مڈل کلاس کا ٹھپّا لگا تھا۔ اعلیٰ طبقے کی لڑکیاں اور لڑکے اپنے گروہ میں مڈل کلاس لڑکوں اور لڑکیوں کو شامل کرنے سے کتراتے ہیں۔ اٹھارہ سال کی دبلی پتلی زرد رنگت والی لڑکی چمپا احمد بہت جلد اس گروہ میں ایک ڈسٹربنگ ایلیمنٹ (گڑ بڑ والے عنصر) کے روپ میں شامل ہوجاتی ہے، اس شمول سے بہت پہلے لکھنؤ کی طلعت اور نرملا، ہری شنکر اور کمال (ناول کے مکرر اور سہہ کرّر سامنے آنے والے کردار) بنارس کی لڑکیوں سے بسلسلۂ امتحان بنارس میں مقابل آچکے تھے۔ کمال، چمپا احمد کے سحر میں مبتلا ہوچکا تھا۔ چمپا احمد کی اس ایک جھلک کو ناول نگارہ نے یوں پیش کیا ہے۔۔۔۔
خاص طور پر جہاں راجہ صاحب محمود آباد کا ذکر ہے ہم نے اُنکو دیکھا نہیں پر ایسی انسیت و اپنائیت ہے جیسے وہ ہمارے کوئی بہت اپنے ہیں اماّں سے اتنا ذکر سنا اُسکے بعد اپنی بِٹی سے اتنا سنا تھا کہ بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کچھ چیزیں ہم خود دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔وہ کوئی بہت بلند مقام رکھتے ہیں ہمارے لئے کیونکہ تخلیقِ پاکستان اور تکمیلِ پاکستان میں انکا ایک بہت خاص مقام ہے
کمال رضا پاکستان ہجرت کرکے ناول کا ایک ایسا کردار بن جاتا ہے جو پاکستان کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔


کراچی سے جو اُن دنوں نوزائیدہ مملکت پاکستان کا دارالخلافہ تھا، کمال رضا نے جو خطوط لکھے ہیں ان میں اور بعد میں مشرقی پاکستان کا جو حال احوال تحریر کیا ہے، ان سے مغربی پاکستان اور اس زمانے کے مشرقی پاکستان کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ یہ خطوط کمال رضا نے اپنی چھوٹی بہن طلعت رضا کو لکھے ہیں۔

ناول میں عہد بہ عہد، گزرتے وقت کا مناسبت سے تکنیک، اسلوب اور زبان و بیاں کے کچھ پرانے اور نئے نمونے ملتے ہیں۔ ان کو اس مہارت سے استعمال کیا گیا ہے کہ بعض اوقات، ان کی شناحت بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ کمال رضا کے خطوط کو پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ ناول نگارہ نے فکشن کی اس پرانی اور فرسودہ اور قدرے پامال تکنیک کو بلاجھجک استعمال کیا کیوں کہ موقع کی نسبت سے یہی طریقہ فطری لگتا ہے۔ ان خطوط میں اس زمانے کے پاکستان کو موضوع بناکر دکھایا ہے جو بہت اچھا لگتا دوسرے سب سے اچھا لگتا ہے جب پڑھتے ہیں کراچی کے بارے میں لکھا ہے کہ دارلخلافہ تھا ان دنوں تو ابا جان سے سنتے تھے پڑھ کر بہت دل خوش ہوتا ہے ۔۔۔۔

جناب شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے:” ’آگ کا دریا‘ میں ہندوستانی تہذیب اور تاریخ کا ایک غیر معمولی اور آفاقی احساس پیش کیا جاتا ہےاور تاریخ اور تہذیب کے باہمی عمل اور ردِعمل کے تسلسل اور انقطاع کا جو شعور اُنھوں نے ” آگ کادریا “ میں پیش کیا اُس کی مثال صرف اُردو ادب ہی نہیں بلکہ تمام ہندستانی فکشن میں نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ ہمیں آگ کا دریا کے بارے میں مدلل تجزیہ ہمارے دل کو بہت بھاتا ہے ۔۔۔

البتہ فکشن نگارگیبریل مارکیز کی تنہائی کے سو سال ۔۔۔۹ انکا فکشن اپنی نانی سے سنی ہوئی لوک کہانیوں سے تخلیق کیا گیا ۔۔یہ ناول دنیا کی دس عظیم ناولوں میں شمار ہے ۔۔۔انھوں نے فکشن میں ناستلجیا اور طلسمی حقیقت نگاری کے مسئلے کو خصوصی طور پر توجہ کا مرکز بنایا ہے۔۔۔
انڈیا پاکستان میں پرانی تہذیبوں کا ختم ہونا ، نئی تہذیبوں کا بننا۔۔۔۔۔محترمہ قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’آگ کا دریا‘ میں یہ سب پڑھنے کا موقع ملا۔ انگریزوں کا قبضہ، برٹش راج میں آزادی کی جنگ کو ظالمانہ انداز میں کچلا جانا، پھر بٹوارہ اور خون خرابہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے ملک پاکستان پر مذہب کی آڑ میں عدم برداشت کا پردہ کیسے اُڑھایا !!!!!محترمہ قرۃ العین حیدر کی تحریر کم عمری اپنا گہرا اثر چھوڑ گئی ۔۔۔۔۔۔
محترمہ کی ایک اور ناول ہماری بہت پسندیدہ ہے جسکا نام
ہاؤسنگ سوسیائٹی ہے موضوع اسکا بھی تقسیمِ ہند و پاک ہے ۔۔۔
ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہندوستان کے مشترکہ کلچر اور تہذیب کی جس طرح نمائندگی ملتی ہے اسے شاید ہی کسی اور اردو کے قلمکار نے اس طرح پیش کیا ہو۔

جمشید جب پاکستان میں سیٹل ہو جاتا ہے اور بڑا کاروباری بن جاتا ہے تو اسے اپنی بیٹی کا خیال آتا ہے جو ہندوستان میں اس کی مطلقہ بیوی کے ساتھ ہے وہ اسے لینے اپنے آبائی گاؤں آتا ہے اور جب وہاں وہ اپنے چچایا خسر سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے:
’’ہم خود پڑھاتے ہیں اردو اور قرآن شریف، شمبھو بھیّا انگریزی بھی پڑھادیتے ہیں اے،بی،سی،ڈی۔ گوسائیں بھیّا اسے ہندی پڑھا رہے ہیں ۔سید مظہر علی نے فخر سے بتایا جمشید کو ایسا محسوس ہوا جیسے گاؤں کے لوگ اس کی بیٹی کو ذاتی ذمّہ داری سمجھتے تھے۔ وہ یہ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا ارادہ ہے کہ کراچی لے جانے کے کچھ عرصے بعد وہ فرحت النسا کو تعلیم کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیجدے مگر اب چچا ابااور شمبھو دادا اور گوسائیں کا کا کو یہ بتاتے ہوئے اسے بے حد شرم آئی۔‘‘

مندرجہ بالا اقتباس صرف فکشن کا حصّہ نہیں بلکہ حقائق کی روداد ہے جس کے بل پر ہندوستان کے لوگ آج بھی ساری دنیا میں اپنی ایک الگ اور قابلِ مبارکباد شناخت رکھتے ہیں۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کمال کے بھی مختلف اوتاروں پر غور نہیں کیا؟ ہندوستان آئے ہوئے عرب سے لے کر ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین تک( جس میں بنگلہ دیش کی بھی کچھ بھنک محسوس ہوتی ہے ) اور ماڈرن آزادی کے بعد کے کمال تک! چمپا کی طرح یہ کردار بھی غور کرنے کے قابل ہے!
 

سیما علی

لائبریرین
کمال کے بھی مختلف اوتاروں پر غور نہیں کیا؟ ہندوستان آئے ہوئے عرب سے لے کر ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین تک( جس میں بنگلہ دیش کی بھی کچھ بھنک محسوس ہوتی ہے ) اور ماڈرن آزادی کے بعد کے کمال تک! چمپا کی طرح یہ کردار بھی غور کرنے کے قابل ہے!
بالکل درست فرمایا اُستادِ محترم
ابوالمنصور کمال کا المیہ یہ رہا کہ علامتی اور عملی طور پر مسلمانوں کی ہندوستان آمد، حکمرانی، تہذیب کے عروج و زوال اور پھر دل شکستگی کے ساتھ وہاں سے نکل کر پاکستان آمد کے تمام اجتماعی المیے کو وہ بھگتتا ہے۔
ابوالمنصور کمال جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہے اول تا اخیر ناآسودہ ہی رہتے ہے۔ حالانکہ وہ بہت پڑھے لکھے ہے اور بڑے بڑے سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان نے پاکستان جاکر یعنی سب سے بچھڑ کر ایک نئے مضطرب اور ناسٹلجیا کے مارے ہوئے انسان کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ اس کے لئے کتنا دل دکھانے والا جملہ دیا گیا ہے۔ کمال کس طرح ہندوستان میں داخل ہوا تھا اور کس طرح وہاں سے نکل گیا!!!!
ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین (بالکل بنگلہ دیش کی بھی بھنک محسوس کی جاسکتی ہے ))
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگ کا دریا، کا مرکزی خیال ہی وقت ہے جس کی چھتری تلے انسان جبر و قدر کے تحت آیا تھا، آرہا ہے اور آتا رہے گا۔۔
وقت کی چھتری تلے گزرتے، زمانوں میں وہ بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔عیش و عشرت کا عرصہ خواب کی طرح گزرجائے گا۔ انسانوں کا جلوس اپنے اپنے کردار ادا کرکے اپنی اپنی قبروں میں اتر تا رہے گا۔ مرگھٹ حیات کی اصلیت ہے۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
محترمہ قرۃالعین حیدر کے والد جناب سجاد حیدر یلدرم اعلیٰ انسانی اقدار کے پاس داروں میں سے تھے۔ انکے والد کا شمار اردو کے مشہور فکشن نگاروں ہے میں ہوتا ہے ۔انکے خاندان میں علم وادب کا سرمایا ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہا’ انکے گھرانے کی عورتیں بھی پڑھی لکھی تھی ۔ یلدرم کی نانی سیدہ ام مریم نے تو قرآن شریف کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔۔۔۔ان کی والدہ نذر سجاد بھی اردو کی مشہور افسانہ نگار تھیں۔یہ فن ان کو حقیقتاً ورثہ میں ملا تھا۔ہمیں محترمہ کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔
علم وادب انکے خاندان کی وراثت میں موجو د رہا جو نسلاً بہ نسلاً چلتا رہا۔
قرة العین حیدر کا بچپن کا زمانہ پورٹ بلئیر میں گزرا اور انکی ابتدائی اور ثانوی تعلیم دہرادون، لاہور اور لکھنٔو میں ہوئی ۔۔یہ اپنے عہد کی بڑی قلم کار و تخلیق کار ہی۔۔۔۔ اُِنھوں نے ٣١ معروف اور معتبر ایوارڈ اور اعزازات حاصل کئے ۔۔۔۔
’’آگ کا دریا‘‘ نے اُردو ناول نگاری کی تاریخ کو ایک وقار عطا کردیا۔ ناول کیا ہے،گویا صدیوں کی تاریخ اور فلسفہ ہے کہ جس کے درمیان ہندوستان اپنی ارتقائی منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ناول کے چند اہم کرداروں میں انسان، تہذیب، تاریخ، فلسفہ اور وقت شامل ہیں۔
ممتاز نقّاد، خلیق انجم نے اس ناول کے بارے میں تحریر کیا ہے،’’اُردو کے کسی بھی ناول نگار نے انسانی تاریخ کا اتنا وسیع مطالعہ نہ کیا ہوگا، جتنا قراۃ العین حیدرنے کیا ہے۔ انسانی اور سماجی علوم پر اُن کی گہری نظر ہے۔ انہیں فلسفے اور خاص طور پروقت کے فلسفے سے غیر معمولی دل چسپی ہے۔ انہوں نے اپنے ناول آگ کا دریا کی بنیاد وقت کے فلسفے پر رکھی ہے۔‘‘
 

الف عین

لائبریرین
بالکل درست فرمایا اُستادِ محترم
ابوالمنصور کمال کا المیہ یہ رہا کہ علامتی اور عملی طور پر مسلمانوں کی ہندوستان آمد، حکمرانی، تہذیب کے عروج و زوال اور پھر دل شکستگی کے ساتھ وہاں سے نکل کر پاکستان آمد کے تمام اجتماعی المیے کو وہ بھگتتا ہے۔
ابوالمنصور کمال جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہے اول تا اخیر ناآسودہ ہی رہتے ہے۔ حالانکہ وہ بہت پڑھے لکھے ہے اور بڑے بڑے سوالات اٹھاتے ہیں۔ ان نے پاکستان جاکر یعنی سب سے بچھڑ کر ایک نئے مضطرب اور ناسٹلجیا کے مارے ہوئے انسان کی حیثیت سے جنم لیا تھا۔ اس کے لئے کتنا دل دکھانے والا جملہ دیا گیا ہے۔ کمال کس طرح ہندوستان میں داخل ہوا تھا اور کس طرح وہاں سے نکل گیا!!!!
ڈھاکہ کے ابو المونشور کمال الدین (بالکلبنگلہ دیش کی بھی بھنک محسوس کی جاسکتی ہے ))
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگ کا دریا، کا مرکزی خیال ہی وقت ہے جس کی چھتری تلے انسان جبر و قدر کے تحت آیا تھا، آرہا ہے اور آتا رہے گا۔۔
وقت کی چھتری تلے گزرتے، زمانوں میں وہ بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔عیش و عشرت کا عرصہ خواب کی طرح گزرجائے گا۔ انسانوں کا جلوس اپنے اپنے کردار ادا کرکے اپنی اپنی قبروں میں اتر تا رہے گا۔ مرگھٹ حیات کی اصلیت ہے۔۔۔۔۔۔
میرا ناولٹ پڑھا؟ 'مائل بکرم راتیں' کی محرک عینی آپا ہی تھیں۔ 1972ء میں اپنی سکالر شپ کے پیسوں سے آگ کا دریا خریدا تھا اور پڑھا تھا، اور شاید یہ ناول 1973، 1974ء میں شروع کیا تھا اور اس وقت بنگلہ دیش تازہ تازہ ہی بنا تھا تقریباً۔ اسے میں آگ کا دریا کا سیکویل ہی مانتا ہوں، وہی وقت اہم ترین کردار، اور اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناول
برقی کتابیں میں
پنجند پر
دستیاب ہے، شاید محفل میں بھی شامل کیا تھا۔
برقی کتابیں بھی شاید فعال نہیں ہے اس وقت، کیا دوسروں کو پرانی برقی کتابیں رسائی دے رہی ہیں؟
 

سیما علی

لائبریرین
اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناول
برقی کتابیں میں
پنجند پر
دستیاب ہے، شاید محفل میں بھی شامل کیا تھا۔
برقی کتابیں بھی شاید فعال نہیں ہے اس وقت، کیا دوسروں کو پرانی برقی کتابیں رسائی دے رہی ہیں؟
بہت بہت شکریہ اُستادِ محترم پہلی فرصت میں پڑھتے ہیں پنجند پر دستیاب ہیں ۔۔۔۔۔
سلامت رہیے ۔بہت ڈھیر ساری دعائیں!!
 

سیما علی

لائبریرین
میرا ناولٹ پڑھا؟ 'مائل بکرم راتیں' کی محرک عینی آپا ہی تھیں۔ 1972ء میں اپنی سکالر شپ کے پیسوں سے آگ کا دریا خریدا تھا اور پڑھا تھا، اور شاید یہ ناول 1973، 1974ء میں شروع کیا تھا اور اس وقت بنگلہ دیش تازہ تازہ ہی بنا تھا تقریباً۔ اسے میں آگ کا دریا کا سیکویل ہی مانتا ہوں، وہی وقت اہم ترین کردار، اور اتفاق سے اس ناول کے بیانیے ہر بھی عینی آپا کا واضح اثر ہے، یہ ناول
برقی کتابیں میں
پنجند پر
دستیاب ہے، شاید محفل میں بھی شامل کیا تھا۔
برقی کتابیں بھی شاید فعال نہیں ہے اس وقت، کیا دوسروں کو پرانی برقی کتابیں رسائی دے رہی ہیں؟
اُستادِ محترم شروع کردی پڑھنا یہ کہانی ہم اماّں سے بار بار سنتے یہ کہانی کیا یاد دلا دیا آپ نے ہماری لاڈلی اماّں ۔۔۔۔۔۔۔
سات شہزادے ہوتے تھے یا سات شہزادیاں۔ ساتویں شہزادے کا تیر کسی تالاب میں مینڈکی کے پاس چلا جاتا تھا جس سے اسے شادی کرنی ہوتی تھی۔یہ دوسی بات ہے کہ بعد میں پتہ چلتا تھا کہ وہ بھی شہزادی ہی تھی جسے جادو سے مینڈکی بنا دیا گیا تھا۔ یا پھر کوئی ساتویں شہزادی /شہزادہ اپنی قسمت کا کھانے کی وجہ سے معتوب ہو جاتی تھی/ہو جاتا تھا۔یہ سارے معزول شہزادے اور مظلوم شہزادیاں اپنے اُجاڑ محلوں میں اپنی قسمت کا ماتم کرنے کے لئے رہ جاتے تھے ۔ انھیں ان ماتم گاہوں کے حصار کے باہر کا کچھ پتہ نہ تھا جہاں روشنیاں تھیں، رنگ تھے ، سُر تھے ۔

’تو پھر بادشاہ نے کہا کہ جس شہزادے کا تیر جس طرف جائے گا وہیں اس کی شادی کر دی جائے گی۔ پہلے شہزادے کا تیر شمال کی طرف گیا، اور وہاں ………‘
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
سونے میں تولنے والا جملہ

مائل بکرم راتیں
شاید وقت نہیں بیتتا، ہم بیت جاتے ہیں۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ ٹک۔ کلاک مسلسل چیخ رہا تھا۔

’توا ہنس رہا ہے !! توا ہنس رہا ہے !!‘

یہ بھی اپنی اماّں کے منہ سے سناُ ہمارا خیال ہے اب لوگ یہ بولتے ہی نہیں اور سمجھتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔ ایک بار اُن سے پوچھا تو معلوم ہوا کوئی خوشی آنے والی ہو تو توا اس طرح ہوتا ہے ۔۔۔۔
وہ ان چنگاریاں نکلنے کو اچھا شگن لیتی تھیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
اُستاد محترم
لطف آگیا پڑھ کے ۔۔۔۔۔۔
یہاں کے پنجابی اور سندھی باشندوں کی کسی شئے پر قبضہ نہیں کیا ہے ۔ سندھی پنجابی کا جھگڑا ہے ۔ اردو ، سندھی ۔ پنجابی زبانوں کا الگ ہے ۔ شیعہ سنی۔ اسلام میں تو یہ بھی ہے کہ دوسرے مذہب کو برا مت کہو۔ پھر ہندوستان پاکستان کی دوستی برِّ صغیر کے لیے نہایت ضروری ہے ۔۔۔۔ ہمیں۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ صرف اپنا ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مگر ہمارے آئڈیلز۔ "

" عینی آپا کا کردار مت بنو۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
پہلے ہم ایک ہی ملک میں تھے ۔۔۔ پھر سب ایک دوسرے ملک میں ساتھ آ گئے تھے ۔ اگرچہ الگ الگ شہروں میں ۔ اور پھر ایک ہی ملک کے دو بازوؤں میں بٹ گئے ۔ اور اب وہ دونوں بازوٗ علیٰحدہ ہو گئے ہیں ۔ اور اب تم بنگلہ دیش کی شہری ہو ۔ مگر اب بھی راج شاہی یا چاٹگام یا وہاں ہی کہیں ہو تو ۔۔۔ کون جانے ۔۔۔ میرا بھی کون جانے کہ میں اگلے پل کہاں ہوں گی ۔۔ خیر ۔۔
یہ دکھ ہمیں جب ذکر ہو اُستادِ محترم تازہ لگتا ہے لگتا ہے کل کی بات ہو محسوس کیا ہے ماموں جان کی پوسٹنگ ڈھاکہ میں تھی اور فال سے اک دن پہلے اُنکے کسی بنگالی دوست نے ٹکٹ دیا تھا بس اُسکی مۂربانی سے واپس آسکے تھے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہوئے پچّیس سال ہو گئے ہیں ۔مگر کیا پاکستانی اردو ادب اور ہندوستانی اردو ادب کو الگ کیا جا سکتا ہے ؟ ہندوستان میں بھی سنا ہے کہ ہمارے ناصر کاظمی ۔ منیر نیازی اور ظفر اقبال وغیرہ کا ہی بول بالا ہے ۔ اور ہمارے نقوش اور فنون میں بیدی اور قاضی عبدالستار اور سریندر پرکاش اور محمد علوی ۔۔ بانی ۔ شہر یار ۔۔ بشیر بدر ۔ خلیل الرحمٰن اعظمی کس شوق سے پڑھ جاتے ہیں۔ واحد بھائی نے ملتے ہی پوچھا کہ میں نقوش اور فنون کے تازہ شمارے لایا ہوں یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صد فی صد حقیقت کچھ بھی الگ نہیں کیا جاسکتا اور مضبوط تر ہوگیا ۔۔۔۔
بہت خوب لکھا آدمی ایک ایک لفظ میں کھو جاتا ہے سر اسکی کتابی شکل مل سکتی ہے کتاب کی صورت میں پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے ۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
تھوڑا پہلے بھی لکھ چکے تھے لیکن کچھ جلدی میں لکھا اس لئے تشنگی باقی تھی ۔۔۔
اُردو بہت جلد پڑھنا شروع کی جہاں تک یاد ہے سات سال کی عمر سے بچوں کی کہانیاں پڑھنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔۔۔ہمدرد نونہال سے شروعات اب بھی یاسم اورصارم بھی پڑھتے ہیں تو ہمارا دل بہت خوش ہوتا ہے ۔۔اردوکے چاہنے والوں میں ماہنامہ ہمدرد نونہال سے کم ہی لوگ ہونگیں جو بچوں کے اس رسالے واقف نہ ہو۔۔۔۔۔ تقریباً 70 سال سے اردو میں بچوں کے ادب کی خدمت کررہا ۔۔۔ یہ رسالہ اردو زبان کی لغت سے کم حیثیت نہیں رکھتا تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی کہیں پڑھا تھا کہ اب انگریز ی بھی شائع ہورہا ہے ۔۔اگر صرف اردو میں رہتا تو بہتر تھا اا بہانے بچوں میں اُردو پڑھنے کا شوق پروان چڑھتا رہے تو بہتر ہے پر شاید یہ وجہ ہو کہ جن بچوں کو اُردو پڑھنا مشکل لگتا ہو اُن میں بھی شوق پیدا ہو۔۔۔
جب ہم بچے ایک ساتھ بیٹھ کر کہانی سنتے تھے اپنی اماّں سے تو سننے کے دوران کہانی کے وقوعات اور اس کے کرداروں کو تصور کرنے سے کہانی میں ہماری دلچسپی بڑھ جاتی تھی ۔۔بچوں کے ناول۔ جن میں ’’عالی پر کیا گزری‘‘ اور ’’میرا نام منگو ہے‘‘ شامل ہیں۔ ’’عالی پر کیا گزری‘‘ ہماری بڑی پسندیدہ ناول تھی۔۔۔
داستانِ امیر حمزہ بار بار پڑھی اور ہر بار اتنا ہی لطف آیا اور اب بھی اگر موقعہ ملے تو پڑھ لیتی ہوں۔۔۔
روزنامہ کھلونا بھی اُس زمانے میں نکلتا تھا ۔اب تو بچوں کے لئے اتنے رسالے شاید نکلتے نہیں یا ہماری نظر سے نہیں گذرے ۔۔۔اور ساتویں جماعت سے اباّجان کی کتابوں کی طرف توجہ ہوئی تو
محترمہ قرۃ العین حیدر کو پڑھنا شروع جب پوری طرح اُنکی تحاریر ہمارے سر پر سے گذر جاتیں پر آہستہ آہستہ جوں جوں سمجھ میں آنے لگیں اُن میں گم رہنے لگے ۔انکے افسانوں میں زندگی رکتی نہیں بلکہ تیزی سے رواں ہے انکا فکشن پڑھنے کا اپنا لطف ہے آگ کا دریا ہم نے بار بار پڑھی اور دل نہیں بھرایہی حال افسانوں کا ہے ۔۔ٹائمز لندن‘ نے اپنے ادبی صفحات میں لکھا ’اُردو فِکشن میں ’آگ کا دریا‘ کی وہی حیثیت ہے جو ہسپانوی ادب میں ’تنہائی کے سو برس‘ کی‘ہے ۔۔۔۔
افسانوی مجموعہ ’ستاروں سے آگے‘ ہمارا ٌآل ٹائم فیورٹ ۔۔۔عصمت چغتائی ،واجدہ تبسم ،جیلانی بانو،اے آر خاتون ۔رضیہ بٹ،پھر بشریٰ رحمنٰ،عمیرہ احمد،کو چاٹ ڈالا اتنی ڈانٹ پڑتی اماّں کی کیا کھانا پینا اُڑھنا بچھونا سب یہی کتابیں ہیں کچھ اور سیکھنا ہے کے نہیں کورس کی کتابوں میں رکھ کر یہ ناولیں پڑھیں حد تو ہے چاند کی روشنی میں بھی کتابیں پڑھیں ۔۔۔۔۔
واہ زبردست ۔ ۔ !
 

صابرہ امین

لائبریرین
سیما آپا، استاد محترم کی روزانہ کی روٹین جان کر بے حد لطف آیا تھا۔ اس لیے یہ دل چاہا کہ آپ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ اپنا دن کیسے گذارتی ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
سیما آپا، استاد محترم کی روزانہ کی روٹین جان کر بے حد لطف آیا تھا۔ اس لیے یہ دل چاہا کہ آپ سے بھی پوچھا جائے کہ آپ اپنا دن کیسے گذارتی ہیں۔

اِس قدر جس پر گراں صبح کی بیداری ہے۔
ہمیں بھی شاعر مشرق کی طرح صبح سویرے اٹھ کر نسیم صبح اور طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہونا بے حد عزیز ہے ۔۔۔۔اور اُن سے نہ چھوٹا لندن میں بھی آداب سحرخیزی، سچ ہے بُری عادتیں نہیں چھوٹتیں یہ ذکر اُنھوں نے بارہا کیا ہے ۔۔۔۔
یہ عادت بھی ہمیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی ہم جب سے ہوش سنبھالا ہم فجر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے جاگ جاتے ہیں !!!!!ہمیں پرندوں کا اللّہ ھو اللّہ ھو کہنا بہت بھاتا ہے تازہ ہوا میں سانس لینا پروردگار اور اُسکیصناعی سے لطف اندوز ہونا ہمارا پسندیدہ ترین مشغلہ ہےمعصوم چڑیوں کاچہچہانا ہم سنتے ہیں اور انکی اپنی زبان تسبح کرنا ہمیں بہت سکون دیتا ہے ۔۔۔۔پھر وقتِ اذان ہوجاتا ہے نماز کے بعد ۔تلاوتِ کلامِ پاک ۔۔۔پھر والدین کے لئے بخشش کے دعا کرنا ۔۔۔۔۔
کچھ اذکار اور ذکرِ الہی کی کوشش ۔۔۔۔اس روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہم دنیا کے کسی کونے پر بھی ہوں تو یہی روٹین ہے !!!!لندن کی یخ بستہ سردی اور بارش میں بھی اُسی وقت اُٹھتے ہیں اور اسی طرح ۔۔۔بھائی کے پاس انڈونیشیا میں ہوں یا بیٹی کے پاس سنگاپور میں ہوں ۔۔پاکستان میں نماز کے بعد ہم اپنے پودوں کی دیکھ بھال پانی دینا تراش خراش اور صفائی ۔۔۔۔بالکنی کی صفائی ہمارا پسندیدہ مشغلہ ۔۔۔۔
پھر ہماری دو پڑوس کی سہیلیاں ہیں جو ہماری طرح صبح جلد بیدار ہوتیں ہیں ۔۔۔چہل قدمی کے لئے قریبی پارک آجاتے اور ایک گھنٹہ چہل قدمی کے بعد گھر واپس آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آجتک کے لئے بٹیا اتنا باقی پھر لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اِس قدر جس پر گراں صبح کی بیداری ہے۔
ہمیں بھی شاعر مشرق کی طرح صبح سویرے اٹھ کر نسیم صبح اور طلوع آفتاب سے لطف اندوز ہونا بے حد عزیز ہے ۔۔۔۔اور اُن سے نہ چھوٹا لندن میں بھی آداب سحرخیزی، سچ ہے بُری عادتیں نہیں چھوٹتیں یہ ذکر اُنھوں نے بارہا کیا ہے ۔۔۔۔
یہ عادت بھی ہمیں اپنے والدین سے ورثے میں ملی ہم جب سے ہوش سنبھالا ہم فجر سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے جاگ جاتے ہیں !!!!!ہمیں پرندوں کا اللّہ ھو اللّہ ھو کہنا بہت بھاتا ہے تازہ ہوا میں سانس لینا پروردگار اور اُسکیصناعی سے لطف اندوز ہونا ہمارا پسندیدہ ترین مشغلہ ہےمعصوم چڑیوں کاچہچہانا ہم سنتے ہیں اور انکی اپنی زبان تسبح کرنا ہمیں بہت سکون دیتا ہے ۔۔۔۔پھر وقتِ اذان ہوجاتا ہے نماز کے بعد ۔تلاوتِ کلامِ پاک ۔۔۔پھر والدین کے لئے بخشش کے دعا کرنا ۔۔۔۔۔
کچھ اذکار اور ذکرِ الہی کی کوشش ۔۔۔۔اس روٹین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہم دنیا کے کسی کونے پر بھی ہوں تو یہی روٹین ہے !!!!لندن کی یخ بستہ سردی اور بارش میں بھی اُسی وقت اُٹھتے ہیں اور اسی طرح ۔۔۔بھائی کے پاس انڈونیشیا میں ہوں یا بیٹی کے پاس سنگاپور میں ہوں ۔۔پاکستان میں نماز کے بعد ہم اپنے پودوں کی دیکھ بھال پانی دینا تراش خراش اور صفائی ۔۔۔۔بالکنی کی صفائی ہمارا پسندیدہ مشغلہ ۔۔۔۔
پھر ہماری دو پڑوس کی سہیلیاں ہیں جو ہماری طرح صبح جلد بیدار ہوتیں ہیں ۔۔۔چہل قدمی کے لئے قریبی پارک آجاتے اور ایک گھنٹہ چہل قدمی کے بعد گھر واپس آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آجتک کے لئے بٹیا اتنا باقی پھر لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتظر منتظر ۔ ۔
 

سیما علی

لائبریرین
چہل قدمی کے بعد ہم کچھ دیر آرام کرتے ہیں پھر غسل اور اُسکے بعد ناشتے کی تیاری ۔۔ہم چائے کے ساتھ رسک یا ایک سلائس اور اُبلا انڈا ۔۔۔۔اُنکو کبھی پراٹھا انڈا اور چائے اور کبھی صرف سلائس اور اُبلے انڈے ۔۔۔۔دو سال پہلے تک تو دفتر کی مصروفیات ہوتیں تھیں اور ہم تھے پھر آہستہ آہستہ ہم نے کچھ کرنے کا سوچا کچھ عرصے ڈے کئیر بھی شروع کیا پھر کوڈ نے گھروں تک محدود کردیا ۔۔تو یہ سلسلہ منقطع ہوا
ہم نے شام کو اسکول ان اے گیراج جو ایک این جی او چلاتی ہے اس میں بھی چھوٹے بچوں کو پڑھایا یہ ایک فلاحی ادارہ بہت خوش اسلوبی سے چلا رہا ہے ۔۔۔
اب ریٹائیر منٹ کے بعد دوبارہ ہمیں سلائی کڑھائی کے شوق سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی مل گیا ۔۔۔سارا دن آفس کے بعد بھی مصروف گذرتا ہے ۔۔۔
دوپہر میں کیونکہ آفس کی وجہ سے کبھی قیلولہ کی عادت نہیں ہوئی تو اب بھی کبھی کبھی دوپہر کھانے اور نماز کے بعد کچھ دیر آرام کرلیتے ہیں اُس میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب ہمارے ساتھ ہوتی ہے ۔۔۔۔اوریہی کتابیں ہماری بہترین دوست ہیں ۔۔۔جب ہم کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں تو آس پاس کے ماحول سے بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ جب تک جس کتا ب کا آپ مطالعہ کررہے ہیں اگر آپ اُس اپنے آپ کو محو نہیں کرتے آپ اس سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔۔۔
اس دوپہر کے تھوڑے آرام کے بعد عصر کا وقت ہوجاتا ہے ۔۔۔۔پھر شام کا وقت بھی ہمیں بہت پسند ہے دن آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھتا بہت ہی حسین لگتا ہے جسطرح چار بجے صبح کا وقت ہم پر اثر انداز ہوتاہے اسی طرح پانچ بجے شام کے بعد کا وقت بھی ہمارا بے حد پسندیدہ ہے عصر کے بعد کی ہماری چہل قدمی کی سہیلیاں ہیں ۔۔۔۔اُنکا ساتھ ہمیں بہت پسند ہے اور ایک گھنٹہ یا کبھی ایک کھنٹے سے کچھ کم پارک ضرور جاتے ۔۔چاہے چہل قدمی نا بھی کریں تو پارک میں تازہ ہوا اور قدرت کی صناعی سے لطف اندوز ہونا ہمیں بے حد راحت دیتا ہے تھکے ہارے پرندوں کو واپس اپنے گھروں کو جاتے دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے قدرت کے رنگ دیکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نظیر اکبر آبادی صاحب کی یہ نظم ۔۔۔۔۔۔
زمیں سے آسماں تک تو نے جو جو رنگ رنگے ہیں
یہ رنگ آمیزیاں کوئی دکھا سکتا ہے۔ کیا قدرت

ہزاروں گل ہزاروں گل بدن تو نے بنا ڈالے
کوئی مٹی سے ایسے گل کھلا سکتا ہے کیا قدرت

ہوئے ہیں نور سے جن کے زمین و آسماں پیدا
کوئی یہ چاند یہ سورج بنا سکتا ہے کیا قدرت

ترے حسن تجلی کا جہاں ذرہ جھمک جاوے
تو پھر موسیٰ کوئی واں تاب لا سکتا ہے کیا قدرت

دم عیسیٰ میں وہ تاثیر تھی تیری ہی قدرت کی
وگرنہ کوئی مردے کو جلا سکتا ہے کیا قدرت

تو وہ محبوب چنچل ہے کہ بار ناز کو تیرے
بغیر از مصطفی کوئی اٹھا سکتا ہے کیا قدرت

نظیرؔ اب طبع پر جب تک نہ فیضان الٰہی ہو
کوئی یہ لفظ یہ مضموں بنا سکتا ہے کیا قدرت

ذرہ ذرہ اُس قادر مطلق کی مدح میں مصروف نظر آتا ہے۔پرندوں کے غول اس ترتیب سے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں کہ دل اتنا خوش ہوتا ہے ۔۔۔اور ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا ہے کہ پروردگار انسان تو اشرف المخلوقات ہے اسے بھی ترتیب عطا فرما یہ کس سمت رواں دواں بے ترتیبی سی بے ترتیبی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب سے پہلے واپسی ہو جاتی ہے ۔۔۔بس شام اور صبح کے روٹین میں یہ فرق ہے کہ صبح روزانہ ہے اور شام کی مصروفیت ہفتے میں تین دن ہے ۔۔۔۔
باقی چار دن عصر کے بعد کچھ وقت سلائی کڑھائی کے لئیے ہے !!!یہ بھی پسندیدہ مشغلوں میں سے ہے اور اب اُن میں ایک اضافہ اُردو محفل بھی ہے ۔۔۔اور جس دن محفل سے دوری ہو تو لگتا ہے کوئی بہت ضروری کام بھول گئے ۔۔۔
مغرب کے بعد کا وقت بڑی تیزی سے گذرتا ہے ۔۔۔نماز کے بعد اکثر اگر دوپہر کو کچھ کھانے میں ایسا بنا ہو جو زیادہ مرغوب نا ہو تو کوئی ہلکی غذا ضرور بنالیتے ہیں جیسے کھچڑی ہمیں اور انہیں دونوں کو پسند ہے تو کھچڑی پودینے کی چٹنی اور دہی کا رائتہ لوکی کا ضرور بناتے ہیں ۔۔۔۔
رات کے کھانے اور بعد نماز کوشش ہوتی ہے کہ جلدی سوئیں اب تو پھر بھی کبھی کبھی زیادہ دیر تک جاگ لیتے ہیں ۔۔۔ورنہ جلدی سونا اور جلدی اُٹھنا ہمیشہ سے ہماری عادت ہے ۔۔۔۔
یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل سرِ آئنہ ، اسے بھول جا!!!!!!!!
 
Top