محفل چائے خانہ

تیور دکاندار کے شعلے سے کم نہ تھے
لہجے میں گونجتی تھی گرانی غرور کی
گاہک سے کہہ رہا تھا ذرا آئِینہ تو دیکھ
کس مُنہ سے دال مانگ رہا ہے مسور کی
 
میڈم کی ڈانٹ سن کے ملازم پکار اٹھا
ہر چند سنگریزہ ہوں، گوہر نہیں ہوں میں

لیکن کلام کیجئے مجھ سے ادب کے ساتھ
نوکر ہوں کوئی آپ کا شوہر نہیں ہوں میں
 
کبھی نہ زیر کیا نقطہ ہائے بالا کو
ہمیں پسند نہ آیا کہ تُو کو یُو کرتے

کبھی لکھی نہیں درخواست ہم نے انگلش میں
"زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"
 
دیکھی ہیں بعض ایسی خواتین خوش لباس
جاتی ہیں محفلوں میں قرینے سے ڈھنگ سے

رہتا ہے ان کو ذکر کی محفل میں بھی یہ دھیان
تسبیح میچ کرتی ہو کپڑوں کے رنگ سے
 
سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے ایک خوبصورت رباعی لکھی ہے جس سے دنیا کی ہر شے میں اسم محمد [ص] کے جلوے نظر آتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں

ہر عدد کو چوگن کرلو ، دو کو اس میں دو بڑھائے
پورے جوڑ کو پنج گن کر لو ، بیس سے اس میں بھاگ لگائے
باقی بچے کو نوگن کرلو ، دو کو اس میں دو بڑھائے
گرو نانک یوں کہے ، تو ہر شے میں محمد کو پائے
 

شمشاد

لائبریرین
رات کہتے ہیں تیری زلف گرہ گِیر کو لوگ

رات کہتے ہیں تیری زلف گرہ گِیر کو لوگ
تُو اگر سر منڈھا دے تو اُجالا ہو جائے
 
دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہِ معنی نہ ہوا
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
شمشاد
 

شمشاد

لائبریرین
چائے حاضر ہے جناب

images
 
اہا اہا لطف آ گیا کچھ طبعیت سنبلی ہے ورنہ تو طبعیت بہت مکدر ہو گئی تھی جب لوگ علمی بحث کا جواب نہیں دے سکتے تو شور مچاتے ہیں ذاتیات پر اتر آتے ہیں اسی ڈر سے میں نے گفتگو کو طول نہ دیا ورنہ ان لوگوں کو کیا پتہ
گماں نہ کر مجھے تابِ سوال نہیں
ڈر فقط یہ ہے کہ تجھے لاجواب کر دوں گا
 

شمشاد

لائبریرین
شہزاد بھائی یہاں اسی فورم پر بڑی بڑی لمبی بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کچھ تو واقعی کارآمد تھیں اور باقی زیادہ تر بحث برائے بحث میں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ اگر آپ کو فرصت ملے اسلامی تعلیمات والے زمرے میں ضرور دیکھیے گا۔
 
شہزاد بھائی یہاں اسی فورم پر بڑی بڑی لمبی بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ کچھ تو واقعی کارآمد تھیں اور باقی زیادہ تر بحث برائے بحث میں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ اگر آپ کو فرصت ملے اسلامی تعلیمات والے زمرے میں ضرور دیکھیے گا۔
جب کوئی دلیل کے باوجود قائل نہ ہو تو بحث بڑھانے کا کوئی فایدہ نہیں ہوتا خیر میں ادھر چکر لگاؤں گا
 
ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا،اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ اُس نے چوری کی ہے اور جواز یہ دیا کہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مر جاتا !
جج کہنے لگا '' تم اعتراف کر رہے ہو کہ تم چور ہو ،میں تمہیں دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں اسی لیے تو تم نے روٹی چوری کی ہے ،لہٰذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں ''
مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے،اور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم دیتا ہے
پھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کر کے کہتا ہے '' میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اس لیے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چوری کرنا پڑی ''
اُس مجلس میں 480 ڈالر اکھٹے ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے '' مجرم '' کو دے دی۔یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے ۔ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اسی واقعے کی مرہون منت ہے ( سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چودہ سو سال پہلے ہی یہ کام کر گئے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کا وظیفہ جاری کرنے کے حکم دے دیا)
غور کیجئے : کبھی کبھی ایک شخص کی سوچ پوری قوم کو بدل دیتی ہے
 
Top