السلام علیکم!
ہم بھی سید احمد اللہ قادری کے اس کلام کے ساتھ آپ کی محفلِ چائے خانہ میں جگہ چاہتے ہیں
چائے ہے یہ یا کہ سرخئ لب و رخسار ہے
دودھ ہے یہ یا تجلئ جمالِ یار ہے
قند ہے یا لذتِ شیرینئ گفتار ہے
اور حرارت کا سبب کیا گرمئ گفتار ہے
اس مرکب کو شرابِ مقیلاں کہتا ہوں میں
کیا غلط کہتا ہوں گر جانِ جہاں کہتا ہوں میں
بھوک کے عالم میں ہے سرمایۂ آبِ حیات
پیاس کے عالم میں لذت بخش صد جامِ نبات
رنج میں ہر گھونٹ اس کا وجہ تسکین و نجات
اور خوشی میں ہے سرور و کیف کی اک کائنات
یہ وہ نعمت ہے کہ جس کا ربط ہر عالم سے ہے
اعتبارِ کوثر و تسنیم اِس کے دم سے ہے
راہ سے جس طرح راہرو کو ہے منزل کا یقیں
یا نظر کو چاندنی سے بدرِ کامل کا یقیں
اس طرح بڑھتا رہا ہے چائے سے دل کا یقیں
یعنی صد فیصد ہوا فردوسِ کامل کا یقیں
چائے سی نعمت جو اِس دنیا میں دے ڈالی ہمیں
اُس جہاں میں دَر سے کیا پلٹائے گا خالی ہمیں
جنت الفردوس میں مانا کہ آرائش بھی ہے
دودھ کی نہریں بھی ہیں محلوں میں زیبائش بھی ہے
یوں تو حاصل قادری کو ساری آسائش بھی ہے
حضرتِ رضواں سے لیکن ایک فرمائش بھی ہے
خواہ میٹھی دیجئے یا کڑوی کسالی دیجئے
ہر گھڑی فدوی کو اک چائے کی پیالی دیجئے