عبدالقیوم چوہدری
محفلین
اک تے اے عروضیات لے کے بہہ گئے نیں۔میں سردی سے گریزاں ہوں
رضائی ساتھ لائی ہوں .
اب یہ شعر رضائی سمیت آپ رکھ لیں
اچھا مہربانی
آخری تدوین:
اک تے اے عروضیات لے کے بہہ گئے نیں۔میں سردی سے گریزاں ہوں
رضائی ساتھ لائی ہوں .
اب یہ شعر رضائی سمیت آپ رکھ لیں
ہاہاہا ہا ہا !! کیا قہقہہ آور تحریف ہے!! تابش بھائی ! پہلے کہا جاتا تھا کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو ۔ اب شاید بگڑا شاعر ہزل گو کہنا چاہیئے ۔
خوبصورت و شگفتہ کبابی قطعہ ہے۔محمداحمد بھائی کی غزل پر پیروڈی ذرا مشکل کام ہے. البتہ اس غزل پر ایک شعر پہلے سے ہو گیا تھا ساتھ ایک اور شعر ملا کر قطعہ پورا کیا ہے. اتنی ہی ہمت تھی. تک بندی حاضر ہے.
جلے اگر مٹن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
تو کھا لیے چکن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
تری غزال آنکھوں کی مجھے جو یاد آ گئی
بنا لیے ہرن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
کبابی کو شرابی آپ نے کر دیا، اس مثلث کا تیسرا کونہخوبصورت و شگفتہ کبابی قطعہ ہے۔
ہرن کباب ساتھ میں شراب تیرے ہجر میں۔۔۔۔
شراب کا مزا ہے بس جو پی گئی شباب میںخوبصورت و شگفتہ کبابی قطعہ ہے۔
ہرن کباب ساتھ میں شراب تیرے ہجر میں۔۔۔۔
تھوڑا آؤٹ ہوگیا شایدشراب کا مزا ہے بس جو پی گئی شباب میں
مگر وزن پورا ہے رضائی والا حال نہیں ہےتھوڑا آؤٹ ہوگیا شاید
میں نے ہجر کو چراغ سے کباب تک پہنچایا تھا، یہ اگلا مرحلہ آپ ہی سنبھالیں۔خوبصورت و شگفتہ کبابی قطعہ ہے۔
ہرن کباب ساتھ میں شراب تیرے ہجر میں۔۔۔۔
واہ واہ قبلہ کیا کہنے۔ خوب کہا ہے۔کبابی کو شرابی آپ نے کر دیا، اس مثلث کا تیسرا کونہ
مُغنّیہ کی تانیں لاجواب تیرے ہجر میں
ہرن کباب ساتھ میں شراب تیرے ہجر میں
اچھا باندھا ہے آپ نے بھی۔ بس شراب شباب سے پہلے ہی آ گئی۔شراب کا مزا ہے بس جو پی گئی شباب میں
قبلہ بات مرحلوں سے نکل گئی ہے۔ اب تو ہمارے ہاتھ بھی نہیں رہی۔میں نے ہجر کو چراغ سے کباب تک پہنچایا تھا، یہ اگلا مرحلہ آپ ہی سنبھالیں۔
فاخر بھیا، آپ کی سلامتئِ طبع کا کچھ کچھ اندازہ آپ کے تبصروں سے ہوتا رہتا تھا۔ آپ نے جو کچھ انشا فرمایا ہے یہ گو کہ نہایت خوش گوار ہے ہمارے لیے مگر غیر متوقع واللہ نہیں۔ بہت سی داد پیارے بھائی کے لیے!نہایت ادب اور معذرت کے ساتھ استاد محترم راحیل فاروق کی غزل پر بزرگوں کے بھڑکانے پر ایک چیز پیش خدمت ہے جسے شاعری ہرگز نہ کہیں بس طبع آزمائی وہ بھی پہلی دفعہ. مجھے پتہ ہے ڈانٹ پٹے گی پھر بھی حاضر ہے
الو ہی سمجھتے کہ وہ فرزانہ سمجھتے
اے کاش کہ وہ اپنے ہی جیسا نہ سمجھتے
ہم جانے ہی والے تھے کہ وہ آگئے گھر پر
اے کاش کہ وہ صبر کا پیمانہ سمجھتے
یہ تم ہو کہ کہتے ہو اسے دولت و عزت
ہم اس کو جلا وطنی کا پروانہ سمجھتے
دونوں ہاتھ جوڑ کہ بلکہ توڑ کہ عرض ہے کہ میں ہرگز اس قابل نہیں جو الفاظ آپ نے لکھے. بس جو آتا گیا لکھ دیا. استاد کی ہتک کا سوچ بھی نہیں سکتا. کجا کہ ان کو سمجھانے کا. آپ کی تصحیحات سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے. دوسرے کچھ محفل کے بزرگوں کی دیکھا دیکھی یہ حرکت کی اور کچھ نہیں تھافاخر بھیا، آپ کی سلامتئِ طبع کا کچھ کچھ اندازہ آپ کے تبصروں سے ہوتا رہتا تھا۔ آپ نے جو کچھ انشا فرمایا ہے یہ گو کہ نہایت خوش گوار ہے ہمارے لیے مگر غیر متوقع واللہ نہیں۔ بہت سی داد پیارے بھائی کے لیے!
آخری شعر کی بابت کسی مناسب موقع پر آپ کو جتا دوں گا کہ یہ مجھے کیا کیا سجھا گیا ہے۔
محمداحمد بھائی کی غزل پر پیروڈی ذرا مشکل کام ہے. البتہ اس غزل پر ایک شعر پہلے سے ہو گیا تھا ساتھ ایک اور شعر ملا کر قطعہ پورا کیا ہے. اتنی ہی ہمت تھی. تک بندی حاضر ہے.
جلے اگر مٹن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
تو کھا لیے چکن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
تری غزال آنکھوں کی مجھے جو یاد آ گئی
بنا لیے ہرن کے کچھ کباب تیرے ہجر میں
کبابی کو شرابی آپ نے کر دیا، اس مثلث کا تیسرا کونہ
مُغنّیہ کی تانیں لاجواب تیرے ہجر میں
ہرن کباب ساتھ میں شراب تیرے ہجر میں
پھینٹی پڑی ہے اِتنی کہ اب شاعری محال
’’ڈرتا ہوں سوزِ آہِ دلِ پُر ملال سے‘‘
مری پڑوسن کھڑی ہوئی ہے، مجھے محبت سے تک رہی ہے
کہ میرے چہرے کی ساری نخوت مری جبیں سے جھلک رہی ہے
’قدم میں لغزش، نظر فریبی، خیال ناقص، ہے دِل بدی میں‘‘
ہمارے کرتوت ہیں کچھ ایسے، نہ پاس کوئی پھٹک رہی ہے
بہت ہی چاؤ سے بیگم نے تھے جو لگوائے
دراز کے وہی ہینڈل اکھاڑ آیا ہوں
مار پڑنی تو اِک عادت ہے، وہ سہہ بھی لیں گے
"آج تو درد بھی پیہم ہے خدا خیر کرے"
استادِ پیروڈی جناب محمد خلیل الرحمٰن ۔۔۔۔.۔۔۔۔آپ کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔قہرِ بیگم سے جو واقف ہی نہیں ہے میرے
"وہ مرا چارہ گرِ غم ہے خدا خیر کرے"
بہت عمدہ خلیل بھائی.بیویاں چھوڑگئی ہیں مجھے بازار کے بیچ
لا کے پٹخا تھا مقدر نے جو منجدھار کے بیچ
زینتِ صفحہ ء اول ہے تماشا میرا
چُن دیا ہے مجھے دونوں نے جو دیوار کے بیچ
یادِ ایام کہن اور کبھی ذکرِ یاراں
چھپ کے بیٹھا ہوں kitchen کے در و دیوار کے بیچ
اے مری دوسری بیوی تری غصے کی قسم
ہاں جلاتا ہوں میں چولھا تری پھٹکار کے بیچ
آج مرنا مجھے مشکل ہے تو جینا دوبھر
اک کھلونا ہوں میں گل مینہ و گلنار کے بیچ
سارے برتن مجھے دھونے تھے، kitchen بھی دھویا
کیوں توقف تھا مرے کلمہء اقرار کے بیچ
دہرے meaning ہیں کبھی اور کبھی less ہیں meaning
کبھی پڑھ کر بھی تو دیکھو مجھے اشعار کے بیچ
اور اب لرزتے ہاتھوں سے لکھ رہے ہیں جناب ظہیراحمدظہیر بھائی کی خوبصورت غزل کی پیروڈی
بیویاں چھوڑگئی ہیں مجھے بازار کے بیچ
لا کے پٹخا تھا مقدر نے جو منجدھار کے بیچ
زینتِ صفحہ ء اول ہے تماشا میرا
چُن دیا ہے مجھے دونوں نے جو دیوار کے بیچ
یادِ ایام کہن اور کبھی ذکرِ یاراں
چھپ کے بیٹھا ہوں kitchen کے در و دیوار کے بیچ
اے مری دوسری بیوی تری غصے کی قسم
ہاں جلاتا ہوں میں چولھا تری پھٹکار کے بیچ
آج مرنا مجھے مشکل ہے تو جینا دوبھر
اک کھلونا ہوں میں گل مینہ و گلنار کے بیچ
سارے برتن مجھے دھونے تھے، kitchen بھی دھویا
کیوں توقف تھا مرے کلمہء اقرار کے بیچ
دہرے meaning ہیں کبھی اور کبھی less ہیں meaning
کبھی پڑھ کر بھی تو دیکھو مجھے اشعار کے بیچ
ظہیر بھائی کی خوبصورت غزل یہاں ملاحظہ فرمائیے
لوگ ٹوٹے ہوئے ، سالم درودیوار کے بیچ