سولھویں سالگرہ محفل کے محفلین!!!

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
اس سچ کا ہم سے پوچھنا تھا!!!
آپ کی بات ہی کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہم آپ کی طرف آیا کی نوکری کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ بس آپ جلدی سے شرائط نامہ بھیجئیے یا کہ وہ ہم نے بھیجنا ہے؟

روؤف بھائی ذرا یہ کنفیوزن تو دور کیجئیے۔
 

سید عمران

محفلین
آپ کی بات ہی کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہم آپ کی طرف آیا کی نوکری کرنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ بس آپ جلدی سے شرائط نامہ بھیجئیے یا کہ وہ ہم نے بھیجنا ہے؟

روؤف بھائی ذرا یہ کنفیوزن تو دور کیجئیے۔
اب اس کام میں آپ خود کفیل ہوں، مطلب شہنائی والا لیں!!!
 

سید عمران

محفلین
اچھا۔۔۔ اب یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ :biggrin:

چرس کا اثر تو شکل پہ بھی نظر آ جاتا نا۔۔ عدنان بھائی کی ڈی پی میں تصویتٓر تو ماشاء اللہ اچھی خاصی لگی ہے !!
یہ تصویر اس وقت کی ہے جب چرس کا نشہ اتر رہا تھا اور ہیروئن کا چڑھنے والا تھا!!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین

سید عمران

محفلین
جن چھوہاروں کی آپ بات کر رہے ہیں ، ان کا کھجور کا درخت ابھی ابھی لگا ہے۔ بارشیں بہت ہو رہیں تو کہیں سوکھ ہی نہ جائے۔
اس لئے دھیرج رکھئیے۔
درخت پر فی الفور چھتری لگوانے کا انتظام کردیا گیا ہے فکر نہ کریں!!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
رکن بنتے وقت کسی سے اسٹامپ لکھوایا تھا؟؟؟
نہیں بس لکھا پڑھ کر اپنے آپ امید رکھ لی تھی۔
اسی لئے تو اب زبانی کہےپہ یقین کرنا ہی نہیں۔ ہر معاملہ اسٹامپ پیپر پہ لکھا جائے گا ، چاہے 50 روپے والا ہی کیوں نہ ہو۔
مل جاتا ہے نا 50 روپے والا یا ایک صفر اور لگا دیں!!!
 

وسیم

محفلین
لو صاحبو!محفل پر ہمیں چھٹا سال ہوچلا ہے۔ہوسکتا ہے اس مناسبت سے کچھ لوگوں کے خیالاتِ باطلہ ہمیں چھٹا ہوا ہونے کا اشارہ کریں لیکن اگر وہ بزعم خود واضح طور پر ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو ہم بھی واضح طور پہ ان کا باطل ہونا واضح کردیں گے۔خیر اس وقت اصل مدعا نہ ہمارا چھٹا سال ہے نہ چھٹا ہوا ہونا۔ ہم تو خوشی کا یہ موقع جان کر اپنے چند مزموم مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا عزم مصمم لیے حاضر ہوئے ہیں جن کو ایام عام میں نوکِ زباں پر لانا دار و رسن پر چڑھ جانے کے مترادف ہوتا۔ پر امیدِ واثق ہے کہ خوشیوں کے اس شور شرابے میں زہر ہلال کا یہ تلخ گھونٹ حلق سے خوشی خوشی اتار لیا جائے گا۔
اب چوں کہ تمہید طول پکڑ رہی ہے لہٰذا ہم وقت کا زیاں کیے بغیر موضوع کا دامن پکڑنا موزوں گردانیں گے۔ تو آج کے دن ہمارے بیان کردہ مزموم عزائم عنوان سے ظاہر ہیں۔عنوان ایسا اس لیے رکھا ہے تاکہ اسے دیکھتے ہی محفلین بصد شوق جوق در جوق لڑی ھٰذا میں کھنچے چلیں آئیں۔ کیوں کہ دوسروں کی ٹوہ لینا ہماری صدیوں پرانی روایت ہے، اس روایت سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہم کسی طور احسن اقدام نہیں سمجھتے اسی لیے کبھی بھی اس کی حمایت ہرگز ہرگز نہ کریں گے۔
تو صاحبو! جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دوسروں کے بارے میں صحیح سے زیادہ غلط اطلاعات و معلومات لینا ہمارے دل کی تسلی و تشفی کا زیادہ اچھا سبب بنتی ہے۔ اب اس کی ایک مثال لیجیے۔ اگر ہم کہیں کہ ہمارے بھیا آج کسی درگاہ پر کھڑے بریانی پھوڑ رہے تھے تو کوئی اس کی طرف چنداں توجہ نہ دے گا۔ اور ہماری لڑی ھٰذا میں متوقع طور پر لڑی جانے والی لڑائی نہ لڑی جائے گی یوں لڑی ھٰذا چلے بغیر چل بسے گی۔ ظاہر ہے اس عام سی بے مزہ اطلاع میں محفلین کی ازلی ابدی پیاسی حیرت کی تشنگی دور کرنے کا بھلا کیا سامان ہے؟البتہ اگر ہم یہ خبر دینا چاہیں کہ اگلے روز چریا چوک پر ایک آدمی منہ ڈھانپے چرس سپلائی کررہا تھا اور غلطی سے ایک آدمی کے نام کی جگہ بھیا کا نام لکھ دیں، بس پھر تو ایسا کہرام مچے گا کہ الامان الحفیظ۔
سب سے پہلا کام تو یہ ہوگا کہ فوراً تین دھڑے بن جائیں گے۔ ایک بھیا کی حمایت میں ان کی سادگی و معصومیت کے وہ وہ قصے کہانیاں اور افسانے بیان کرے گا کہ بھیا بھی مارے حیرت کے کبھی گریبان میں جھانکیں گے (اپنے) اور کبھی بغلیں جھانکیں گے (اپنی) کہ یہ باتیں ہم میں کب تھیں یا کب پیدا ہوئیں۔ دوسرا دھڑا دھڑا دھڑ حیرت و استعجاب و تشکیک کے سمندر میں چھلانگیں مار مار خود کو پھاواں کرلے گا کہ اچھا یہ ایسے دِکھتے تو نہیں تھے جیسے ہیں۔ حیرت ہے، تعجب ہے، افسوس ہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔اور تیسرا دھڑا وہ ہوگا جو نمک مرچ لگا لگا بھیا کے ماضی کے وہ وہ گڑے مردے اکھاڑ لائے گا جو بھیا کے وہم و گمان کے مطابق ہڈی مٹی ہوچکے تھے۔اس دھڑے کا دائمی سلوگن یہ ہوتا ہے’’دیکھا ہمیں پہلے سے ہی پتا تھا کہ یہ ایسے ویسے ہیں۔‘‘
یہ تو ہوگئی اجتماعی دھڑا بندی اور فرقہ بازی۔ اب آئیے انفرادی انفرادی کھیلتے ہیں۔ تو چلتے ہیں اس انفرادی نما اجتماعی کیفیت کی طرف جس کا ہر فرد انفرادی طور پر شکار ہے۔ یہ وہ کیفیاتِ فطریہ ہیں جن کی قید سے رہائی روح کے قفس عنصری سے رہا ہونے تک محال سمجھیے۔
فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق کچھ لوگ عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ جسمانی و ذہنی شکستگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کے پہیہ کا ایسا چکر ہے جسے روکنا کسی کے بس میں نہیں۔ ایسے لوگ جوانی میں بڑے چول باز ہوتے تھے اور جگتیں مارنے میں ان کا کوئی ثانی نہ ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے بعد چول بازوں اور جگتیں مارنے والوں کو یہی لاثانی لوگ شرم دلا دلا کر پانی پانی کردیتے ہیں۔ یہ عالمِ خشک سالی ان کی پیرانہ سالی کے باعث ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ پیدا ہی خشک سالی کا شکار بنے ہوتے ہیں۔ہر دو صورتوں میں ان کا یہ حال ہوتا ہے کہ جہاں کوئی زور سے ہنسا ان کو اس کی صورت پر پھکڑ پن دکھائی دیا۔ چاہے وہ صورت لاکھ من موہنی ہو ان کا من ککھ وی نہیں موہ سکتی۔ ان لوگوں کے نزدیک ہنسنا بولنا صرف اس وقت پھکڑ پن نہیں ہوتا جب وہ خود اس فعل کو انجام دے رہے ہوں۔
اور یہ دیکھے اصلی تے خالص پھکڑ بازوں کو۔ یہ آپ کو ہر لڑی میں دھڑلے سے دندناتے نظر آئیں گے۔موضوع بحث کفر و اسلام ہو یا مذہبی فرقہ بازیاں، لڑی میں سیاسی مباحث کی جنگ چھڑی ہوئی ہو یا دقیق سائنسی تحقیقات زیر بحث ہوں یا ویسے ہی محفلین بلا سبب محض تفریحِ طبع کے لیے آپس میں ایک دوسرے کا سر پھوڑ رہے ہوں، یہ پھکڑ باز ہر جگہ اپنا الگ ہی رولا پائیں گے۔ جہاں لوگ وقت کی راگنی بجا رہے تھے وہاں یہ بے وقت کی راگنی بجانے لگیں گے، اپنا الگ راگ الاپنے لگیں گے اور سب کو تگنی کا ناچ نچانے لگیں گے۔ان کے آتے ہی لڑی کا رنگ سراسر بدل جائے گا، اصلی شرکاء موضوع ایک ایک کرکے آہستہ آہستہ سرک لیں گے، میدان خالی ہوجائے گا، موضوع کچھ کا کچھ ہوجائے گا مگر یہ لوگ پھکڑ پن کے جھکڑ چلاتے رہیں گے۔اس وقت تک جب تک ان کی بے خودی بے حالی کو نہ پہنچ جائے۔
اب دیکھیے یہ ایک اور گروہ کے لوگ ہیں خشک سالی و بے حالی کا شکار لوگوں سے قدرے مختلف۔ یہ مختلف اس لیے ہیں کیوں کہ یہ ہر ایک سے ہر ایک بات پہ اختلاف کرتے ہیں، چاہے کسی جگہ وہی بات خود کہہ دی ہو۔ پر اگر سامنے والا وہی بات کردے تو گویا قیامت ہی بپا کردے۔اب آجائیں گے یہ حضرات خم ٹھونک کر مقابلہ کے لیے کیل کانٹوں سے لیس۔ پھر جو لڑی میں اودھم مچے گی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔ کچھ لوگ سر پر پیر رکھ کر سرپٹ بھاگیں گے تو کچھ جوتے چپل چھوڑ کر ریس ہوجائیں گے۔ جب یہ لوگ دیکھیں گے کہ اب یہاں کوئی نہ رہا اور لڑی بزبان حال یہ نوحہ پڑھنے لگی ہے ؎
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
تو یہ لوگ ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے، جب دیکھیں گے کہ دیکھنے والا کوئی نہ رہا تو کسی دوسری لڑی کو دیکھنے لگیں گے۔
اگر آپ لوگ اکتاگئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب بات ختم ہوگئی۔ ہر طرح کا موضوع اور ہر طرح کی کیفیات زیر بحث آگئیں تو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ابھی ایسی کوئی کرامت ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ ابھی ایک گروہ باقی ہے جو کچھ بھی ہوجائے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ ان کو نہ کسی بات پر ہنسی آتی ہے نا غصہ۔ کسی لڑی میں لوگ لڑ لڑ کر بے ہوش ہوجائیں، بات ہسپتال کچہری تک جا پہنچے، رقیب روسیاہ ایک دوسرے کے خلاف تھانے میں جا جا کے رپٹ لکھوائیں ان کی جبین آہنی پر کوئی بل نہیں پڑتا۔ یہ ساری صورت حال ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر دیکھتے ضرور ہیں چھوڑتے یہ بھی کچھ نہیں، ہم بھی کچھ نہیں۔ کیوں کہ ہم مشرقی لوگ کچھ کریں نہ کریں الفت کے تقاضے خوب نبھاتے ہیں!!!
چلتے چلتے ایک بات عرض کرتے چلیں کہیں ہماری گستاخیاں ہمیں یہاں سے چلتا نہ کردیں کہ مندرجہ بالا سطور کو محض فکشن سمجھا جائے، وہ فکشن جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔اور اگر ایسا سمجھنا ہاضمے کی صورت حال پر خوشگوار اثرات مرتب کرنے کا باعث نہیں بنتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ جہاں صنم کو اپنی صورت کچھ بگڑتی نظر آئے تو طبیعت بگاڑنے کے بجائے اس صورت کو ہماری صورت پر قیاس کرلیا جائے۔
اللہ اللہ خیر صلّا!!!

ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر
 
Top