سید عاطف علی
لائبریرین
جام و سبو تڑپ اٹھے ۔۔۔۔۔ دیکھ کے میری تشنگی
پوچھنا اب نہ ہم نشیں ۔۔ پاؤں یہ لڑکھڑائے کیوں
پوچھنا اب نہ ہم نشیں ۔۔ پاؤں یہ لڑکھڑائے کیوں
ہماری درخواست ہے کہ اتوار بتاریخ 30 جون ، جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا مندرجہ بالا شعر طرحی مصرع کے طور پر استعمال کیا جائے۔ آج بروز ہفتہ مزمل شیخ بسمل بھائی کا مصرع طرح استعمال کیجیے
ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہتاب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم
یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئیکچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم
ایک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیاپھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم
لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں، نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم
آج نہ جانے کیوں یاد آنے لگے
بن کر آنسو آنکھوں میں مسکرانے لگے
آج نہ جانے کیوں یاد آنے لگے
بن کر آنسو آنکھوں میں مسکرانے لگے
ہماری درخواست ہے کہ اتوار بتاریخ 30 جون ، جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا مندرجہ بالا شعر طرحی مصرع کے طور پر استعمال کیا جائے۔ آج بروز ہفتہ مزمل شیخ بسمل بھائی کا مصرع طرح استعمال کیجیے
اپڈیٹ ہونے سے قبل،اپنے مبتدی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر قسم کی اغلاط پر پیشگی معذرت کے ساتھ:
نالے فلک بدوش ہیں، دیکھو تو ہم خموش ہیں
پوچھیں وہ کیونکہ حالِ دل، خود سے کوئی بتائے کیوں
ترکِ جنوں کے عہد پر، پورے اتر رہے تھے ہم
بادِ صبا نے قہقہے ، بارِ دگر سنائے کیوں
سارے خزینے ہیچ ہیں فقر و غنا کے سامنے
جب ہو چکا ہو دل غنی، دستِ دعا اٹھائے کیوں
دینا تھا دائرہءکار، جبکہ جہاں سے مختصر
ہم کو رموزِ کائنات مو بہ مو سکھائے کیوں
بہت شکریہ مزمل بھائی ! نئے مصرعے پر طبع آزمائی کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو ہم بھی دوستو! حاضر جواب ہیں مگر
لیکن کسی سے کیا کہیں، اپنے ہوئے پرائے کیوں
ہائے عَروضِ بے سِرا، اور ہماری بے زری
لکھ دو وہی جو دل میں آئے، بحر کوئی نبھائے کیوں؟
وہ ہم کو چھوڑ کر تنہا چلے جاتے ہیں محفل سے
نہیں جب شمع تو بے کار پروانہ یہاں کیوں ہو
رقیبوں کی خوشی کے واسطے توڑا ہے دل میرا
کسی کا سود ہو تو ہو مگر میرا زیاں کیوں ہو
ہمارا گھر ہو جس کوچے وہاں دارالاماں کیوں ہو
اگر ہو بھی oتو oایسی oرونقِ oآشفتگاں oکیوں oہومثالِ برقِ ابرِ oآسمانِ تار oجل oجائےتمہارا ہاتھ ہو گر سینہ پر تو دل دھواں کیوں ہوسرِ بزمِ مسیحائی بہ شوقِ لطف کہتے ہیںتمہیں بھیجا تھا جاں لانے ابھی تک تم یہاں کیوں ہویہ کیا کہ ہم کہیں صحبت تو کہتے ہو ہمیں نفرتبزرگی دوست رکھتے ہو تو پھر صاحب جواں کیوں ہویہی دو چار تھمبز اَپ* اب کے مل جائیں تو خوش رہیوتمہارے oواسطے oفاتحؔ oکوئی oرطب اللساںoکیوں oہوThumbs Up *
فاؤل ۔ فاؤل۔ ارے بٹیا کوئی بھی پسند کا شعر نہیں لکھنا ہے بلکہ مصرع طرح کو استعمال کرنا ہے۔