مصطفی جاگ گیا ہے - تبصرے

الف نظامی

لائبریرین
شرف انسانی کے لحاظ سے عام انسانوں میں فرق کا عملی انکار زیادہ تر غیر مسلموں کی طرف سے دیکھنے میں آتا ہے۔ فلسطین کے انسانوں کو دو ٹانگوں والے جانور ، گراس ہوپر ، ڈاگز ،non-existent people کہا جاتا ہے۔

اب ان مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے یہودیوں کو اپنے برابر کہنا کیسا لگتاہے آپ سب کو۔

یقینا آپ سب سفاکی کی اس سطح پر نہیں پہنچنا چاہیں گے جہاں وہ ہیں۔ لہذا عملی طور پر دنیا میں انسان برابر نہیں۔ فرق کیا جاتا ہے۔

یہی وہ موضوع ہے جو اس تحریر کا بنیادی خیال ہے جس پر کسی نے تبصرہ کرنے کی زحمت نہیں کی اور غیر متعلقہ مباحث سے اصل موضوع سے توجہ ہٹانے میں شعوری و لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کیا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اب ان مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے یہودیوں کو اپنے برابر کہنا کیسا لگتاہے آپ سب کو۔

یقینا آپ سب سفاکی کی اس سطح پر نہیں پہنچنا چاہیں گے جہاں وہ ہیں۔ لہذا عملی طور پر دنیا میں انسان برابر نہیں۔ فرق کیا جاتا ہے۔

یہی وہ موضوع ہے جو اس تحریر کا بنیادی خیال ہے جس پر کسی نے تبصرہ کرنے کی زحمت نہیں کی اور غیر متعلقہ مباحث سے اصل موضوع سے توجہ ہٹانے میں شعوری و لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کیا
کیا آپ پر بھی رافع کا اثر پڑ گیا ہے۔ بارہا آپ کو اس بات کا جواب دیا اور آپ مسلسل ایک ہی بات دہرائے جا رہے ہیں۔
پھر جب کوئی آپ کی بات کا رد کرے تو آپ کہتے ہیں کہ میں بحث مباحثے میں نہیں پڑتا ۔۔۔۔ کچھ ہمیں بھی سمجھائیے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم پر بات واضح ہو۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا آپ پر بھی رافع کا اثر پڑ گیا ہے۔ بارہا آپ کو اس بات کا جواب دیا اور آپ مسلسل ایک ہی بات دہرائے جا رہے ہیں۔
پھر جب کوئی آپ کی بات کا رد کرے تو آپ کہتے ہیں کہ میں بحث مباحثے میں نہیں پڑتا ۔۔۔۔ کچھ ہمیں بھی سمجھائیے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم پر بات واضح ہو۔
محمد عبد الرووف:
یہاں کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ نہ ہی مباحثہ کا قصد ہے۔
جب یہاں گپ شپ لگائی جائے گی تو یہ پیغام یاد دہانی کے لیے موجود ہوگا۔
امید ہے مقصد سمجھ آگیا ہوگا۔:)
 

سید عمران

محفلین
آپ کو اچھے سے معلوم کہ ہم وہ کرتے ہیں جو آپ نہیں کہتے۔
اس لئے آئیں گے اور خوب دھڑلے سے آئیں گے۔
یعنی جو ہم کہیں گے وہ نہیں کریں گی...
اگر ہم کہیں آپ یہاں خوب دھڑ لے سے آئیں...
تو نہیں آئیں گی ناں...
قسمے؟؟؟
 

زیک

مسافر
یہ بات نہیں۔ میرے سوال کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ کمپیریزن کے لیے آپ کے پاس ریفرینس ڈی این اے کی انفارمیشن تو ہونا چاہیے جس سے تقابل کیا جا سکے یا اس ٹیکنالوجی میں ایسا ہونا ضروری نہیں۔
پیپر کا خلاصہ ہی پڑھ لیں
 

علی وقار

محفلین
مثلاً یہ:

اور بھی کئی پیپر ہیں۔

امید ہے کہ ڈی این اے کے متعلق میری معلومات اکثر سے بہتر ہیں۔
یعنی، اس پیپر کے مطابق، اگر میں درست سمجھا ہوں تو یہاں زیادہ تر سید خود ساختہ طور پر ہی سید بنے ہوئے ہیں تاہم یہاں مقیم دیگر عرب قبائل یا خاندانوں سے تعلق کا دعویٰ رکھنے والے، بیشتر گروہوں کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ ان کامقامی النسل ہونے کی بہ نسبت، عرب النسل ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

اگر میں غلط ہوں تو براہ مہربانی تصحیح کر دیجیے گا۔
 
آخری تدوین:
یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ آپ حضرات کا مقابلہ ایک ایسی شخصیت سے ہے جو اسی محفل پر آئنسٹائن کے نظریہ اضافت اور فیلڈ ایکویشنز کا "دجل و فریب" فاش فرما چکے ہیں... آگے آپ کی مرضی :)
 

علی وقار

محفلین
یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ آپ حضرات کا مقابلہ ایک ایسی شخصیت سے ہے جو اسی محفل پر آئنسٹائن کے نظریہ اضافت اور فیلڈ ایکویشنز کا "دجل و فریب" فاش فرما چکے ہیں... آگے آپ کی مرضی :)
میں تو تب بھی ایمپریس ہو گیا تھا۔ :)

گو کہ میں پیری مریدی کے خلاف ہوں، مگر میرے خیال میں، میرے اندر مریدی اختیار کرنے کے جملہ لوازمات بدرجہء اتم موجود ہیں۔

اپنا دھیان خود رکھنا پڑے گا۔
 

سید رافع

محفلین
یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ آپ حضرات کا مقابلہ ایک ایسی شخصیت سے ہے جو اسی محفل پر آئنسٹائن کے نظریہ اضافت اور فیلڈ ایکویشنز کا "دجل و فریب" فاش فرما چکے ہیں... آگے آپ کی مرضی :)
اس سلسلے میں اکیلا نہیں۔ ٹیسلا سے لے کر دسیوں غیر معروف سائنسدان اس کو ٹینسر یا میتھس کا دجل ہی کہہ رہے ہیں۔ میں بھی اس پر کام کر رہا ہوں۔ ابھی کچھ ہی ماہ قبل پروفیسر محمد شفیق خان صاحب، جو کہ سری نگر یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، ان سے بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے استعماری قوتوں اور آئینسٹائن کے اس مشترکہ دجل پر کتاب ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

نوبل پرائز ایک دجل ہے۔ ابھی فزکس کا نوبل پرائز جیفری کو گوگل برین کی اے آئی ریسرچ پر پستول کی نوک پر رکھ کر دیا ہے۔ جیفری اے آئی کو انسانیت کے لیے خطرہ اور صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بعینہ ایسے ہی تمام تحقیقات کے نچوڑ کو آئنسٹائن کو دیا گیا تاکہ عظیم علم کو چھپایا جاسکے اور نوبل پرائز دیا گیا۔

نامعلوم کیا وجہ ہے کہ اب تو دنیا جانتی ہے کہ استعماری قوتیں طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ناجانے کیسے کیسے علم کو چھپا رہیں ہیں۔ یہاں نیند ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔
 

سید رافع

محفلین
پیپر کا خلاصہ ہی پڑھ لیں
اس تحقیق کے غلط ہونے کے ممکنہ دلائل درج ذیل ہیں:

اس تحقیق کے غلط ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ افراد سید ہونے کا دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہو سکتا ہے۔ تاریخ میں مختلف وجوہات کی بنا پر بعض خاندانوں نے سید نسب کا دعویٰ کیا، چاہے وہ نسبی طور پر اس سے متعلق نہ ہوں۔ سماجی، معاشرتی، یا مذہبی مرتبے کے لیے سید ہونے کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے، جس سے تحقیق کے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ تمام دعوے سچائی پر مبنی نہیں ہوتے۔ اس سے جینیاتی ڈیٹا میں فرق پیدا ہو سکتا ہے جو تحقیق میں سامنے آیا ہو۔

نمونے کی نمائندگی اور تعداد اہم ہیں۔ اگر تحقیق میں سید خاندانوں کی تعداد محدود یا غیر متوازن تھی، تو نتائج پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔
 

علی وقار

محفلین
یہ بھی اچھا خاصا دلچسپ معاملہ ہے رافع صاحب۔

شرافتِ نسب ایک قسم کا اعزاز ہے، انعام ہے، اس پر رشک بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی باعث آل محمد ﷺسے محبت بھی رکھی جاتی ہے، آل محمد ﷺ کا نبی پاک ﷺسے خاص تعلق کے باعث احترام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر بخشش اور نجات کے لیے محض سید ہونا کافی نہیں ہے، اور نہ ہی سیدوں سے محبت رکھ کر ہی بیڑا پار ہو سکتا ہے، یا پھر اُن سےبے وجہ بغض رکھ کر۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدوں پر ظلم ہوا، بہت ظلم ہوا، تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں مگر سیدوں میں ایسے حکمران بھی ہو گزرے ہیں، جو انتہا درجہ کے سفاک تھے۔ بعض مثالیں تو بالکل سامنے کی ہیں۔سلطنتِ فاطمیہ ہو، بنگال میں حسین شاہی خاندان ہو، دکن کی تاریخ میں بھی سادات کو حکومت ملی، وہاں بھی مظالم دیکھنے کو ملے، خونی رشتوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ اور مثالیں بھی موجود ہیں جہاں سید حکمرانوں کا کم و بیش وہی برتاؤ رہا جو کہ غیر سید حکمرانوں کا تھا۔ بعضے افراد کہہ دیتے ہیں اور شاید اب بھی کہہ دیں گے کہ وہ حقیقی سید نہ ہوں گے، انہوں نے محض سید ہونے کا دعویٰ کیا ہو گا تو، معاملہ مزید الجھاؤ کا شکار ہو جائے گا۔ یعنی کہ اچھائی کے کام نظر آئیں تو کہہ دیا جائے کہ یہ تو سید بادشاہ ہیں، اگر برے کام سرزد ہو جائیں تو یہ کہہ دیا جائے کہ یہ حقیقی سید نہ ہیں۔

اس لیے محفوظ طریقہ بھی یہی ہے کہ ہم اللہ کے حکم کے مطابق صرف نبی پاک ﷺ کی پیروی کریں نہ کہ شخصیت پرستی کا شکار ہو جائیں اور آل محمد ﷺ سے ہی رہنمائی اور ہدایت لینے کو فرضِ عین سمجھنے لگ جائیں جب کہ یہ بھی معلوم ہو کہ اُن میں مختلف افکار و نظریات کےحامل صاحبانِ دانش و عقل بھی موجود ہیں اور ایسے افراد بھی مل جائیں گے جو کہ خود راہ گم کر بیٹھے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ بھی اچھا خاصا دلچسپ معاملہ ہے رافع صاحب۔

شرافتِ نسب ایک قسم کا اعزاز ہے، انعام ہے، اس پر رشک بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی باعث آل محمد ﷺسے محبت بھی رکھی جاتی ہے، آل محمد ﷺ کا نبی پاک ﷺسے خاص تعلق کے باعث احترام بھی کیا جاتا ہے۔ مگر بخشش اور نجات کے لیے محض سید ہونا کافی نہیں ہے، اور نہ ہی سیدوں سے محبت رکھ کر ہی بیڑا پار ہو سکتا ہے، یا پھر اُن سےبے وجہ بغض رکھ کر۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدوں پر ظلم ہوا، بہت ظلم ہوا، تاریخ کی کتب بھری پڑی ہیں مگر سیدوں میں ایسے حکمران بھی ہو گزرے ہیں، جو انتہا درجہ کے سفاک تھے۔ بعض مثالیں تو بالکل سامنے کی ہیں۔سلطنتِ فاطمیہ ہو، بنگال میں حسین شاہی خاندان ہو، دکن کی تاریخ میں بھی سادات کو حکومت ملی، وہاں بھی مظالم دیکھنے کو ملے، خونی رشتوں کو بھی نہ بخشا گیا۔ اور مثالیں بھی موجود ہیں جہاں سید حکمرانوں کا کم و بیش وہی برتاؤ رہا جو کہ غیر سید حکمرانوں کا تھا۔ بعضے افراد کہہ دیتے ہیں اور شاید اب بھی کہہ دیں گے کہ وہ حقیقی سید نہ ہوں گے، انہوں نے محض سید ہونے کا دعویٰ کیا ہو گا تو، معاملہ مزید الجھاؤ کا شکار ہو جائے گا۔ یعنی کہ اچھائی کے کام نظر آئیں تو کہہ دیا جائے کہ یہ تو سید بادشاہ ہیں، اگر برے کام سرزد ہو جائیں تو یہ کہہ دیا جائے کہ یہ حقیقی سید نہ ہیں۔

اس لیے محفوظ طریقہ بھی یہی ہے کہ ہم اللہ کے حکم کے مطابق صرف نبی پاک ﷺ کی پیروی کریں نہ کہ شخصیت پرستی کا شکار ہو جائیں اور آل محمد ﷺ سے ہی رہنمائی اور ہدایت لینے کو فرضِ عین سمجھنے لگ جائیں جب کہ یہ بھی معلوم ہو کہ اُن میں مختلف افکار و نظریات کےحامل صاحبانِ دانش و عقل بھی موجود ہیں اور ایسے افراد بھی مل جائیں گے جو کہ خود راہ گم کر بیٹھے ہیں۔
رہنمائی لینے کے کے دو ہی سورس ہیں فقط اور وہ ہیں کتاب و سنت ۔ علماء، فقہاء اور محدثین نے انہیں انتہائی سہل انداز میں عوام الناس تک پہنچا دیا۔ ان ذرائع کو استعمال کرنے والا کوئی سید ہو یا غیر سید، جس نے صدقِ دل سے عمل کیا اسے نے اپنی عاقبت سنواری۔ اور جس نے عوام الناس کی اس طرف رہنمائی کی اس نے صدقہ جاریہ کیا۔
 

سید رافع

محفلین
شرافتِ نسب ایک قسم کا اعزاز ہے
یہاں سید النسب ہونا شرافت سے بڑھ کر ایک انتظام قیام قیامت تک کے لیے ہے۔ رسول ص کے بعد اب کوئی نبی نہیں سو ایک سید، بااعتبار اعمال، مخلوق کے لیے توحید کی حجت ہے۔ عمومی طور پر سب مسلمان عدل کے لیے کھڑے ہونے کے مکلف ہیں۔ سب ہی حجت ہیں۔

انتظام ہے۔

اس پر رشک بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہرگز نہیں۔ ایسا رشک سخت گناہ کا کام ہے۔ ذمہ داری بھی کوئی رشک کرنی کی شئے ہے؟

اسی باعث آل محمد ﷺسے محبت بھی رکھی جاتی ہے
جی نہیں۔ یہ حکم خداوندی ہے جیسے صلوۃ، زکوۃ، نکاح کو حلال جانتے ہیں اور سور، شراب، زنا کو حرام ویسے ہی آل محمد ﷺسے محبت ایک حکم الہی ہے۔

(اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے۔ سورہ شوری کی آیت 23

یہ محبت آپ ہی کے فائدئے کے لیے ہیں کہ توحید کو سمجھیں۔ توحید کے لیے طہارت قلبی چاہیے جو نسب، ہر نماز میں آل محمد ص پر درود، زکوۃ کے میل کچیل کے دور رہنے، خمس اور دیگر بہت سارے انتظامات کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔

آل محمد ﷺ کا نبی پاک ﷺسے خاص تعلق کے باعث احترام بھی کیا جاتا ہے۔
یہ احترام وغیرہ تکلف ہے۔ اسلام میں بے ضرورت کسی کا احترام نہیں ہے۔ منہ در منہ طعن نہ کرنا، گالی نہ دینا، فحش گو نہ ہونا احترام نہیں ہے بلکہ توحید سمجھنے کا مقدمہ ہے۔ اصل بات ہے کہ توحید سمجھنے کے لیے ظاہر شریعت کی شرافت اختیار کرنی پڑے گی تو اس میں آل محمد ﷺ کوئی خاص نہیں ہیں۔

مگر بخشش اور نجات کے لیے محض سید ہونا کافی نہیں ہے
بخشش کے لیے کیا کافی ہے؟

کیا آپ کو اسکا علم ہے؟

قلب سلیم۔

لیکن جی۔ اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔

البتہ اللہ تعا لیٰ اپنے نیک بندوں اور انکی اولادوں کی حفاظت فرماتے ہیں ۔ سورہ کہف کی آیت 82 کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

"اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شہر میں دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، یہ آپ کے رب کی رحمت کی وجہ سے ہوا"

اور تفسیر ہے کہ اس آیت میں جو نیک آدمی تھا وہ سات پشتوں اوپر تھا۔ چنانچہ سید کے نسب میں جنت کے نوجوانوں کے سردار موجود ہیں سو توقع ہے کہ وہ بھی محفوظ رہیں گے۔

اسکے علاوہ گناہ ہوجانے کی صورت میں عموما سید نسبی شرافت کی وجہ سے اس پر قائم نہیں رہتے ، بلکہ فوراً توبہ کر کے اپنے گناہ معاف کرالیتے ہیں۔

سید کا نسب صرف جناب علی ع کی اولاد سے نہیں بنتا ہے بلکہ والدہ جناب سیدہ فاطمہ ع بھی ہوں۔ دیگر بیویوں کی اولادیں علوی کہلاتی ہیں۔ قدیم زمانے سے علوی، ہاشمی، یہاں تک کہ ہندو جو برہمن مسلمان بن گئے ان کو بھی سید بنا دیا جاتاہے۔ بلکہ تحریک پاکستان کی وجہ سے اورانگریزوں کی مرہون منت، سینکڑوں سید خانوادے، پیرزادے اور گدی نشین وجود میں آئے۔

بہرحال جو خود شرافت پر قائم ہو اسکی عقل بھی سالم رہتی ہے اور وہ کھرے کھوٹے کا فرق کر سکتا ہے۔

اور نہ ہی سیدوں سے محبت رکھ کر ہی بیڑا پار ہو سکتا ہے
محبت نہ رکھی تو گمراہ رہیں گے یا کم از کم صحیح توحید اور اخلاق تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ سورہ شوری آیت 23 میں محبت کا قرآنی حکم اسی وجہ سے ہے۔ اسکے علاوہ حدیث ہے کہ آل محمد ص اور قرآن قیام قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔

یا پھر اُن سےبے وجہ بغض رکھ کر۔
توحید کے صحیح علم کے بغیر بغض ایک بیماری ہے۔

ہر ایک کو اپنے اعمال کا خود حساب دینا ہو گا۔
جی نہیں۔ اسلام میں شفاعت (سفارش) کا تصور بھی موجود ہے۔ قیامت کے دن نبی کریم ﷺ اور کچھ خاص نیک لوگ، اللہ کی اجازت سے، دوسرے مسلمانوں کے لیے سفارش کریں گے۔ لیکن یہ سفارش صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اجازت سے ہی ممکن ہو گی اور وہ کسی بھی ناانصافی پر مبنی نہیں ہوگی۔

سلطنتِ فاطمیہ ہو، بنگال میں حسین شاہی خاندان ہو، دکن کی تاریخ میں بھی سادات کو حکومت ملی، وہاں بھی مظالم دیکھنے کو ملے، خونی رشتوں کو بھی نہ بخشا گیا۔
سلطنتِ فاطمیہ کے عبیداللہ مہدی کو امام جعفرالصادق ع نے بھیجا تھا۔ کوئی مخصوص واقعہ ہو تو تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر حکومت چلانے کے لیے باغی اور عام مجرم قتل ہوتے ہی ہیں۔ یہ عام دستور ہے جو کہ انبیاء کی حکومتوں میں بھی جاری رہا۔

آل محمد ص کے نزدیک ع فتنہ پرور اور باغی مسلمان چاہے رشتے دار ہی کیوں نہ ہو سمجھانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور آخری اقدام کے طور پر قتل کرتے ہیں کہ یہی قرآن کاحکم ہے۔

آل محمد ص کے نزدیک خونی رشتے ایمانی رشتوں سے بہت کم ہیں۔ سورہ المجادلہ کی آیت 22 میں ہے:

"تم کسی قوم کو جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو، نہ پاؤ گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی کریں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی، یا ان کے کنبے کے لوگ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے روح (ایمانی قوت) سے ان کی مدد کی ہے۔" (سورہ المجادلہ 58:22)

آل محمد ﷺ سے ہی رہنمائی اور ہدایت لینے کو فرضِ عین سمجھنے لگ جائیں
پھر کس سے لیں گے؟ اول تو لیں ہی کیوں؟ کس چیز میں رہنمائی کی ضرورت ہے؟

توحید سمجھنے میں رہنمائی چاہیے؟ ھو کو سمجھنے کے لیے؟ غیب میں مستغرق ہونے کے لیے؟ غسل کے فرائض معلوم کرنے کے لیے؟ جہاد کے لیے؟ سیاست کے لیے؟ زندگی کے مقصد کے لیے؟ کس چیز کے لیے ہدایت چاہیے؟

رہنمائی اور ہدایت ایک وسیع لفظ ہے۔

ہر ایک کے ہدایت کا ذوق ایک جیسا نہیں ہوتا۔

لیکن بعض صورتوں میں برے ذوق کے لوگوں سے ہدایت لے گمراہ ہو رہے ہوتے ہیں۔

ہدایت آپ کے اندر ہے۔ برے اخلاق کا اچھے سے پتہ ہے۔ اچھے اخلاق کا اچھے سے پتہ ہے۔

اگر مذید چاہیے تو باپ سے لیں اگر وہ اللہ کی بات آپ سے زیادہ مانتا ہو۔

ورنہ اس شخص سے لیں جو اللہ کی آپ کے گھرانے سے زیادہ مانتا ہو۔

موجودہ دور میں سید سے ہدایت اخلاص سیکھنے کے لیے لیں۔ ضمنا ، محبت،قرآن، حدیث، سیاست ،توحید اور غیب دانی بھی سیکھ لیں۔

ایسے افراد بھی مل جائیں گے جو کہ خود راہ گم کر بیٹھے ہیں۔
عقل نہیں ہے آپ کے پاس؟ سب کو اللہ نے عقل دی ہے اور اس سے بڑھ کر ضمیر۔
 

اربش علی

محفلین
296 مراسلے ہو چکے، مگر تاحال کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ کیوں نہ اس بحث کو یہیں ختم کر دیا جائے؟
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

یا انگریزی میں کہیں تو:
Let's agree to disagree
 

علی وقار

محفلین
یہاں سید النسب ہونا شرافت سے بڑھ کر ایک انتظام قیام قیامت تک کے لیے ہے۔ رسول ص کے بعد اب کوئی نبی نہیں سو ایک سید، بااعتبار اعمال، مخلوق کے لیے توحید کی حجت ہے۔ عمومی طور پر سب مسلمان عدل کے لیے کھڑے ہونے کے مکلف ہیں۔ سب ہی حجت ہیں۔


انتظام ہے۔


ہرگز نہیں۔ ایسا رشک سخت گناہ کا کام ہے۔ ذمہ داری بھی کوئی رشک کرنی کی شئے ہے؟


جی نہیں۔ یہ حکم خداوندی ہے جیسے صلوۃ، زکوۃ، نکاح کو حلال جانتے ہیں اور سور، شراب، زنا کو حرام ویسے ہی آل محمد ﷺسے محبت ایک حکم الہی ہے۔

(اے میرے رسول!) کہئے کہ میں تم سے اس (رسالت کے عوض) پر کوئی معاوضہ (اور مزد و اجرت) نہیں مانگتا سوا (میرے) قرابت داروں (اور اہل خاندان) کی محبت کے۔ سورہ شوری کی آیت 23

یہ محبت آپ ہی کے فائدئے کے لیے ہیں کہ توحید کو سمجھیں۔ توحید کے لیے طہارت قلبی چاہیے جو نسب، ہر نماز میں آل محمد ص پر درود، زکوۃ کے میل کچیل کے دور رہنے، خمس اور دیگر بہت سارے انتظامات کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔


یہ احترام وغیرہ تکلف ہے۔ اسلام میں بے ضرورت کسی کا احترام نہیں ہے۔ منہ در منہ طعن نہ کرنا، گالی نہ دینا، فحش گو نہ ہونا احترام نہیں ہے بلکہ توحید سمجھنے کا مقدمہ ہے۔ اصل بات ہے کہ توحید سمجھنے کے لیے ظاہر شریعت کی شرافت اختیار کرنی پڑے گی تو اس میں آل محمد ﷺ کوئی خاص نہیں ہیں۔


بخشش کے لیے کیا کافی ہے؟

کیا آپ کو اسکا علم ہے؟

قلب سلیم۔

لیکن جی۔ اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔

البتہ اللہ تعا لیٰ اپنے نیک بندوں اور انکی اولادوں کی حفاظت فرماتے ہیں ۔ سورہ کہف کی آیت 82 کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

"اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شہر میں دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا، اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ تو آپ کے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، یہ آپ کے رب کی رحمت کی وجہ سے ہوا"

اور تفسیر ہے کہ اس آیت میں جو نیک آدمی تھا وہ سات پشتوں اوپر تھا۔ چنانچہ سید کے نسب میں جنت کے نوجوانوں کے سردار موجود ہیں سو توقع ہے کہ وہ بھی محفوظ رہیں گے۔

اسکے علاوہ گناہ ہوجانے کی صورت میں عموما سید نسبی شرافت کی وجہ سے اس پر قائم نہیں رہتے ، بلکہ فوراً توبہ کر کے اپنے گناہ معاف کرالیتے ہیں۔

سید کا نسب صرف جناب علی ع کی اولاد سے نہیں بنتا ہے بلکہ والدہ جناب سیدہ فاطمہ ع بھی ہوں۔ دیگر بیویوں کی اولادیں علوی کہلاتی ہیں۔ قدیم زمانے سے علوی، ہاشمی، یہاں تک کہ ہندو جو برہمن مسلمان بن گئے ان کو بھی سید بنا دیا جاتاہے۔ بلکہ تحریک پاکستان کی وجہ سے اورانگریزوں کی مرہون منت، سینکڑوں سید خانوادے، پیرزادے اور گدی نشین وجود میں آئے۔

بہرحال جو خود شرافت پر قائم ہو اسکی عقل بھی سالم رہتی ہے اور وہ کھرے کھوٹے کا فرق کر سکتا ہے۔


محبت نہ رکھی تو گمراہ رہیں گے یا کم از کم صحیح توحید اور اخلاق تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ سورہ شوری آیت 23 میں محبت کا قرآنی حکم اسی وجہ سے ہے۔ اسکے علاوہ حدیث ہے کہ آل محمد ص اور قرآن قیام قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔


توحید کے صحیح علم کے بغیر بغض ایک بیماری ہے۔


جی نہیں۔ اسلام میں شفاعت (سفارش) کا تصور بھی موجود ہے۔ قیامت کے دن نبی کریم ﷺ اور کچھ خاص نیک لوگ، اللہ کی اجازت سے، دوسرے مسلمانوں کے لیے سفارش کریں گے۔ لیکن یہ سفارش صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اجازت سے ہی ممکن ہو گی اور وہ کسی بھی ناانصافی پر مبنی نہیں ہوگی۔


سلطنتِ فاطمیہ کے عبیداللہ مہدی کو امام جعفرالصادق ع نے بھیجا تھا۔ کوئی مخصوص واقعہ ہو تو تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر حکومت چلانے کے لیے باغی اور عام مجرم قتل ہوتے ہی ہیں۔ یہ عام دستور ہے جو کہ انبیاء کی حکومتوں میں بھی جاری رہا۔

آل محمد ص کے نزدیک ع فتنہ پرور اور باغی مسلمان چاہے رشتے دار ہی کیوں نہ ہو سمجھانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور آخری اقدام کے طور پر قتل کرتے ہیں کہ یہی قرآن کاحکم ہے۔

آل محمد ص کے نزدیک خونی رشتے ایمانی رشتوں سے بہت کم ہیں۔ سورہ المجادلہ کی آیت 22 میں ہے:

"تم کسی قوم کو جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتی ہو، نہ پاؤ گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی کریں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی، یا ان کے کنبے کے لوگ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے روح (ایمانی قوت) سے ان کی مدد کی ہے۔" (سورہ المجادلہ 58:22)


پھر کس سے لیں گے؟ اول تو لیں ہی کیوں؟ کس چیز میں رہنمائی کی ضرورت ہے؟

توحید سمجھنے میں رہنمائی چاہیے؟ ھو کو سمجھنے کے لیے؟ غیب میں مستغرق ہونے کے لیے؟ غسل کے فرائض معلوم کرنے کے لیے؟ جہاد کے لیے؟ سیاست کے لیے؟ زندگی کے مقصد کے لیے؟ کس چیز کے لیے ہدایت چاہیے؟

رہنمائی اور ہدایت ایک وسیع لفظ ہے۔

ہر ایک کے ہدایت کا ذوق ایک جیسا نہیں ہوتا۔

لیکن بعض صورتوں میں برے ذوق کے لوگوں سے ہدایت لے گمراہ ہو رہے ہوتے ہیں۔

ہدایت آپ کے اندر ہے۔ برے اخلاق کا اچھے سے پتہ ہے۔ اچھے اخلاق کا اچھے سے پتہ ہے۔

اگر مذید چاہیے تو باپ سے لیں اگر وہ اللہ کی بات آپ سے زیادہ مانتا ہو۔

ورنہ اس شخص سے لیں جو اللہ کی آپ کے گھرانے سے زیادہ مانتا ہو۔

موجودہ دور میں سید سے ہدایت اخلاص سیکھنے کے لیے لیں۔ ضمنا ، محبت،قرآن، حدیث، سیاست ،توحید اور غیب دانی بھی سیکھ لیں۔


عقل نہیں ہے آپ کے پاس؟ سب کو اللہ نے عقل دی ہے اور اس سے بڑھ کر ضمیر۔
آپ نے تفصیل سے جواب دیا، اس کے لیے شکریہ۔ مزید کیا کہوں؟

اتنا ضرور ہے کہ آپ کے ٰدلائل کے باوصف میں اپنی رائے سے رجوع کرنے پر خود کو قائل نہ کر پایا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ نے تفصیل سے جواب دیا، اس کے لیے شکریہ۔ مزید کیا کہوں؟

اتنا ضرور ہے کہ آپ کے ٰدلائل کے باوصف میں اپنی رائے سے رجوع کرنے پر خود کو قائل نہ کر پایا۔
ممکنہ جواب (مہذبانہ انداز میں) "اب آپ اپنے ایمان کا جائزہ لے کر دیکھ لیجیے"
 
Top