ملالہ کا ملال اور قوم کی دھمال

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سید ذیشان

محفلین
ملالہ یوسف زئی ، طالبان کا پہلا ہدف تھی نہ آخری۔ اس پر حملے سے قبل بھی طالبان ،پاکستانیوں کو قتل کرتے رہے ہیں اور بعد میں بھی۔ امریکہ اور نیٹو بھی اپنی پوری خونخواری کے ساتھ پاکستانیوں کو خا ک و خون میں نہلاتے رہے ہیں اور نہلا رہے ہیں۔ جس دن ملا لہ پر قاتلانہ حملہ ہوا اسی دن امریکی ڈرون نے حملے کئے ، لیکن میڈیا میں اس حملے کی خبر ایک فیصد سے بھی کم چلی اور مغربی این جی اوز اور میڈیا کو شاید کل کا کوہاٹ میں ہونے والا خود کش حملہ بھی نظر نہیں آیا جس میں 20 لوگوں کے مرنے کے علاوہ 40 لوگ زخمی بھی ہوئے جس میں بچے بھی شامل تھے ، آپ میں سے بہت سوں نے ٹیلی ویژن پر ان بچوں کو زخمی حالت میں بلکتے ہوئے دیکھا ہو گا ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ طالبان کی پشت پناہی امریکہ نہیں کرتا تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ طالبان کے صرف اسی حملے پر میڈیا میں زلزلہ برپا کر دیا جائے جن میں مغربی میڈیا کے لئے لکھنے والی ایک بچی نشانہ بنے؟۔ کیا باقی بچے اپنے ماں باپ کے لئے ملالہ سے کم ہیں؟۔ کیا وہ ملالہ سے کم پاکستانی ہیں؟۔
بلا شبہ تعلیم سے روکنے والوں اور سکول تباہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئیے یہ انصاف کا تقاضا ہے لیکن یہی انصاف اس وقت حرکت میں کیوں نہیں آتا جب ایک طاقت اپنے مفادات کے لئے ملکوں کے ملک تہس نہس کر کے رکھ دے؟۔ پاکستان کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے اس میں فضائی حملے کرے؟۔ مدارس کو میزائلوں سے تباہ کرے؟۔
دوستانِ گرامی ، یک طرفہ مت چلئے۔ ملالہ پر حملے کی مذمت ضرور کی جانی چاہئیے اور ساتھ ہی طالبان کی اپنی آقاؤں کے لئے کی گئی اس حرکت کے پس منظر کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہئیے کہ یہ طالبان 35000 سے زائد پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ یہ تمام پاکستانی نہ تو ہالبروک سے ملے تھے اور نہ ہی امریکی امداد کے لئے امریکہ کے مہمان بنے تھے پھر ان کا کیا قصور تھا کہ جس کی پاداش میں سڑکوں پر ان کا قیمہ بنا دیا گیا؟ خنجروں سے ان کے گلے کاٹے گئے۔ ان کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا؟۔ تب میڈیا کی پھرتیاں کہاں تھیں؟۔ صرف ایک خبر سے زیادہ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا تھا اور نہ ہی آئندہ کسی حملے کے متاثرین کے بارے میں بتایا جائے گا۔اس سے کیا یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ کچھ طاقتیں ملالہ ، اس کے خاندان اور اس کے مشن کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہی تھیں شاید ملالہ اور اس کے خاندان والے بھی ان طاقتوں کی ہوشیاری سے ناواقف رکھے گئے ۔ اور اب ملالہ پر کروائے گئے حملے کو بھی انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کو ایک بہترین موقع بنایا ہے۔ ہمارے لوگ جذباتی ہیں ابھی نہیں سمجھیں گے ذرا گرد بیٹھ لینے دو سب سمجھ میں آ جائے گا کہ چند مخصوص عالمی طاقتوں کی ملالہ کے لئے اتنی ہمدردی اور باقی پاکستانیوں سے اتنی نفرت کی اصل وجہ کیا ہے۔ کیا ملالہ پاکستانی نہیں ہے یا باقی پاکستانی ملالہ جیسے انسان نہیں ہیں؟؟؟۔
بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ ہم یہی تو روتے ہیں کہ ان ظالموں کی کاروائیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کی تو بات نہیں کرتے کہ کیونکہ ملالہ کافی مشہور تھی اس لئے اس کو میڈیا میں ہائلائٹ کیا۔ پاکستانی میڈیا کی سمجھ نہیں آتی کہ اپنی مرضی سے کسی واقعے کو کوریج دیتے ہیں اور کسی کو نہیں۔
 

ساجد

محفلین
بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ ہم یہی تو روتے ہیں کہ ان ظالموں کی کاروائیوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کی تو بات نہیں کرتے کہ کیونکہ ملالہ کافی مشہور تھی اس لئے اس کو میڈیا میں ہائلائٹ کیا۔ پاکستانی میڈیا کی سمجھ نہیں آتی کہ اپنی مرضی سے کسی واقعے کو کوریج دیتے ہیں اور کسی کو نہیں۔
ایک ایسا میڈیا جو تحقیق کی بجائے سنسنی خیزی کے بل پر چلتا ہو وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا ہے؟۔:)
 
جس قدر اخبارات ملالہ کے کیس کے حوالے سے بھرے گئے ہیں اس سے پہلے کسی معاملے میں نہیں بھرے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دوران کوئی دوسرا مرچ مسالے والا کیس سامنے نہیں آیا۔ ہاں اگر آج کوئی نیا کیس سامنے آجائے تو سب ملالہ کو بھول کر اس طرف جت جائیں گے۔
میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کا مسئلہ ابھی تک نہیں سلجھا۔ پر چوں کہ وہ میڈیا پر نہیں اس لیے وہ مسئلہ ہی نہیں۔۔:)
 

نایاب

لائبریرین
ایک ملالہ ہی کیوں ؟
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

121014115225_malala_304x171_bbc_nocredit.jpg

ملالہ ہمت اور جذبے کی علامت بن چکی ہیں
یہ بات درست ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو سر آنکھوں پر بٹھانے والوں کو ڈرون حملوں میں اپاہج اور ہلاک ہونے والے سینکڑوں بچے یاد نہیں اور میڈیا کو صرف ملالہ سے مطلب ہے۔ اس کے ساتھ زخمی ہونے والی شازیہ اور کائنات کے بارے میں کوئی فکر اور ذکر نہیں۔
بالکل اسی طرح جیسے مغرب نے گذشتہ پانچ سو برس سے ایک انیس سالہ ان پڑھ فرانسیسی دہقانی لڑکی جون آف آرک کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ حالانکہ برطانیہ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ میں لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے مرے۔ ہزاروں عورتوں کو جون کی طرح مشرک ہونے کے جرم میں پادریوں نے چوکوں میں نصب چوبی کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا۔
نا ملالہ کا کوئی بھلا ہے نا عافیہ کا۔۔۔

تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔
ورنہ تو یہ بحث کبھی ختم ہی نہ ہو کہ ملالہ کے ساتھ دیگر سینکڑوں ہزاروں زخمی بچے کیوں یاد نہیں آتے۔ بالکل اسی طرح کہ جنہیں صرف عافیہ یاد ہے انہیں امریکیوں کے ہاتھوں عقوبت خانوں میں رسوا ہونے والی سینکڑوں عراقی اور افغان عورتیں اور پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر عریاں گھمائی جانے والی لڑکیوں اور قبائلی علاقوں میں سر قلم ہونے والی ادھیڑ اور بوڑھی عورتوں کے نام کیوں یاد نہیں ؟؟؟ ایسی بحث میں نا ملالہ کا کوئی بھلا ہے نا عافیہ کا۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
جس قدر اخبارات ملالہ کے کیس کے حوالے سے بھرے گئے ہیں اس سے پہلے کسی معاملے میں نہیں بھرے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دوران کوئی دوسرا مرچ مسالے والا کیس سامنے نہیں آیا۔ ہاں اگر آج کوئی نیا کیس سامنے آجائے تو سب ملالہ کو بھول کر اس طرف جت جائیں گے۔
میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کا مسئلہ ابھی تک نہیں سلجھا۔ پر چوں کہ وہ میڈیا پر نہیں اس لیے وہ مسئلہ ہی نہیں۔۔:)
سیلاب زدگان اور زلزلہ زدگان مرچ مصالحہ نہیں ہے ناں۔
 

منصور مکرم

محفلین
جس قدر اخبارات ملالہ کے کیس کے حوالے سے بھرے گئے ہیں اس سے پہلے کسی معاملے میں نہیں بھرے اور نہ ہی الیکٹرانک میڈیا۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دوران کوئی دوسرا مرچ مسالے والا کیس سامنے نہیں آیا۔ ہاں اگر آج کوئی نیا کیس سامنے آجائے تو سب ملالہ کو بھول کر اس طرف جت جائیں گے۔
میں نے تو اب تک یہی دیکھا ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کا مسئلہ ابھی تک نہیں سلجھا۔ پر چوں کہ وہ میڈیا پر نہیں اس لیے وہ مسئلہ ہی نہیں۔۔:)
اب بھی اگر کوئی نیا ایشو آگیا تو ملالہ کو سب بھول کر اسکے پیچھے لگ جائیں گے۔
 

نگار ف

محفلین
ملالہ کی ڈائری بی بی سی کے رپورٹر نے لکھی تھی، ملالہ کے تمام تر تقاریر جو مختلف سکول پروگرامز میں کی تھیں وہ سب بھی بی بی سی کے نمائندے نے لکھی تھیں بلکل حقیقت ہے کہ اور وہ انٹریوز جو مختلف ٹی وہ چینلز پہ چلیں اس دوران بی بی سی کے نمائندے کی روح ملالہ کے اندر گھس گئی تھی آواز تو ملالہ کی تھی مگر الفاظ سارے بی بی سی کے رپورتر کے تھے
 

سید ذیشان

محفلین
ملالہ کی ڈائری بی بی سی کے رپورٹر نے لکھی تھی، ملالہ کے تمام تر تقاریر جو مختلف سکول پروگرامز میں کی تھیں وہ سب بھی بی بی سی کے نمائندے نے لکھی تھیں بلکل حقیقت ہے کہ اور وہ انٹریوز جو مختلف ٹی وہ چینلز پہ چلیں اس دوران بی بی سی کے نمائندے کی روح ملالہ کے اندر گھس گئی تھی آواز تو ملالہ کی تھی مگر الفاظ سارے بی بی سی کے رپورتر کے تھے
ویسے ان کی بیوقوفانہ باتیں سن کر تو یوں لگتا ہے کہ رپورٹر نہیں کسی چائے خانے کے "چھوٹے" نے مضمون لکھا ہو۔ :D
 

عسکری

معطل
امت اخبار سے بڑی بکواس پاکستان میں چھپتی نہیں ۔:chatterbox: امت بالکل اسی طرح جھوٹا پروپیکنڈہ کرتا ہے جیسے بی بی سی اور دوسرے ۔فرق صرف لیفٹ رائٹ کا ہے ۔
 

باباجی

محفلین
میں بیوقوف ہوں۔ آپ ذرا زیادہ الفاظ میں اپنے خیالات پیش کریں تاکہ سمجھ آ جائے۔
میرے خیال میں جتنا میں نے لکھا ہے اتنا ہی بہت ہے
میں اور زیادہ کچھ لکھنے سے معذرت کرتا ہوں
اگر کوئی بھائی اپنے الفاظ میں اسکی مناسب وضاحت لکھنا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا
ایک بار پھر معذرت zeesh بھائی
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ بہت خوب
امت کے اس نمائندے کی پہنچ تو بہت اوپر تک ہے ۔ بی بی سی لندن کے ہیڈ آفس بش ہاؤس کے اک اہم ذریعے سے یہ انکشاف حاصل کیا گیا ۔ اور ملک و ملت اسلامیہ کے مفادکے لیئے اس ذریعے کو افشاء کرنا مناسب نہ سمجھا گیا ۔ بھلے لوگو اس اہم ذریعے کو سامنے لاؤ ۔ مغربی میڈیا تو نہیں چھوڑتا کسی کو بھی چاہے نکسن ہو چاہے کارٹر چاہے کلنٹن ۔ دوغلے پن اور منافقت کی انتہا ہے یہ کالم ۔ اک جھوٹ چھپانے کو سو جھوٹ گھڑے جا رہے ہیں اور وہ بھی اللہ سچے کے پسندیدہ دین اسلام کے نام پر ۔ اس کالم میں مندرج طالبان کے تینوں گروپ " حکیم اللہ محسود ۔ مولوی نذیر ۔ حافظ گل بہادر جانے کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں ۔ اپنے نمائندے " احسان اللہ احسان " کے اعترافی بیان پر ۔ اک بار کھل کر اس حملے کی مذمت کر دیں طالبان اور طالبان کے حمایتی مذہبی علماء ۔ پھر دیکھیں کیسے سچ سامنے آتا ہے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
بس دعا ہے کہ پوری طرح سے صحتیاب ہو جائے اور سکول جانا شروع کر دے۔ ابھی تک تو صحتیابی کے آثار اچھے ہیں۔ لیکن یہ بہت لمبا اور سست پراسیس ہوگا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top