آپ تو مرثیہ اندلس میں بھی یہی ادھر ادھر کی ہانک رہے ، آپ نے جو تاریخ گھڑی ہو ،یا گھڑنے جارہے ہیں وہ پیش کردے۔ یا صرف مراسلے کے آخر میں سوال کا جواب دیں۔ کیوں پریشان ہوتے ہیں صاحب۔کیا زبردست تاریخ گھڑی ہے
آپ تو مرثیہ اندلس میں بھی یہی ادھر ادھر کی ہانک رہے ، آپ نے جو تاریخ گھڑی ہو ،یا گھڑنے جارہے ہیں وہ پیش کردے۔ یا صرف مراسلے کے آخر میں سوال کا جواب دیں۔ کیوں پریشان ہوتے ہیں صاحب۔کیا زبردست تاریخ گھڑی ہے
اس وقت سے مراد گھنٹوں یا سیکنڈوں کا حساب نہیں بلکہ حالیہ دور کی تاریخ ہے۔ شام وعراق میں تو آپ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا احسان ہے جو 2003 سے مسلمانوں کو سبق سکھایا جارہا ہے ، فلسطین میں یہ سب کچھ یہودیوں کے قبضے کے وقت سے ہی ہورہا ہے۔اسوقت سب سے زیادہ ظلم شام و عراق میں ہو رہا ہے۔
جب ملک کا اصل نام اسرائیل ہے تو اسے مقبوضہ یا مقتولہ فلسطین کیوں کہا جائے؟
غالبا قرآن کی اقتداء میں کہا ہےاس سفرنامے میں لکھنے والے نے اسے مقدس سرزمین کہا تو عجیب لگا
متفق !!غالبا قرآن کی اقتداء میں کہا ہے
یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ
اس کے علاوہ بھی جا بجا اس خطہ کو برکتوں والا خطہ کہا گیا ہے
سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ
وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا
یاد رہے نزول قرآن کے وقت موجودہ شام،فلسطین ،لبنان اور اردن ایک ہی ملک شام ہوا کرتے تھے
اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسرائیلیوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ دنیا کا دوسرا بڑا مذہب اسلام جو دنیا میں سب سے تیز رفتاری سے پھیلا اور پھیل رہا ہے، اس کے ماننے والوں کی اکثریت اسرائیل کو ناپسندیدہ ملک مانتی ہے۔ یہاں سیکورٹی کے انتظامات سخت ترین ہونا ان کے نزدیک وقت کی ضرورت ہے، اور کچھ نہیں۔یہ ذرا سیکیوریٹی سے اوپر کے سوالات ہوتے ہیں اس سے پہلے بھی کسی کا سفر نامہ پڑھا تھا جہاں اس خاتون کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا کلئیرنس سے پہلے ۔
فی الحال تو بری بلا کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ 57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ان کے لالچ کی وجہ سے ہے، یہ آپ کیسے ثابت کریں گے؟ میرے خیال کے مطابق تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔۔ انہیں یہودیوں کی حکومت بری لگتی ہے، اس کی وجہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کریں تو تردید کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ہے۔ صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں یہودیوں کی حکومت ہے۔ یہ بھی ہضم نہیں ہو رہا۔ لالچ بری بلا ہے۔
کیا شام و عراق میں یہود و نصاریٰ کی آمد سے قبل کوئی جنگ نہیں ہوئی؟ خود مسلمانوں کے مابین کئی خانہ جنگیں انہی ممالک میں کئی بار ہو چکی ہیں جب مغربی اقوام کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔شام وعراق میں تو آپ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا احسان ہے جو 2003 سے مسلمانوں کو سبق سکھایا جارہا ہے ، فلسطین میں یہ سب کچھ یہودیوں کے قبضے کے وقت سے ہی ہورہا ہے۔
نام فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ قریبا ایک جتنی قدیم ہے البتہ اسرائیل کا نام آثار قدیمہ کے حوالہ سے زیادہ پرانا ہے۔ مختلف اقوام نے اس علاقہ کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے۔فلسطين نام ریاست اسرائیل سے پہلے کا ہے اور طویل عرصہ یہی نام رہا!
وہ بات میں نے ایچ اے خان کے اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھنے کی وجہ سے کی تھی۔ غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کی حکومت ہے پر اس وجہ سے وہاں پر ہونے والے مظالم جو حماس کر رہی ہے، کم نہیں ہوئے۔فی الحال تو بری بلا کچھ اور دکھائی دیتی ہے۔ 57 ممالک میں مسلمانوں کی حکومت ان کے لالچ کی وجہ سے ہے، یہ آپ کیسے ثابت کریں گے؟ میرے خیال کے مطابق تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان توسیع پسندانہ عزائم رکھتے ہیں۔۔ انہیں یہودیوں کی حکومت بری لگتی ہے، اس کی وجہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ہیں۔ اس کا اعتراف نہ کریں تو تردید کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔
اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب اگر ہیں تو ان کا ایک مذہبی پس منظر موجود ہے۔ قیامت کے آثار کو بیان کرتی ہوئی ایک ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو لڑائی کا نقشہ کھینچا اور میدان بیان کیا ہے، وہاں بنیادی مدعا ہی اسرائیل میں موجود مقامات ، بلکہ پوری دنیا کی مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کا آنا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی حکومت مسلمان حکمران آج کل کر رہے ہیں ، ایسے حالات میں تو مسلمانوں کے ہاتھ جو ملک ہیں، وہ بھی ان انگریزوں اور غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہوتے جنہوں نے اسلامی شعائر کو ہم سے زیادہ اپنا رکھا ہے اور امانت، دیانت اور سچائی کو اپنے سینوں میں جگہ دے کر اعمال کا بنیادی جزو بنا لیا ہے، تو زیادہ بہتر تھا۔مذہبی پیش گوئیاں اسلام کی پوری سچائی کے ساتھ واپسی کو بیان کرتی ہیں۔ حکومت تو اس کے بعد آتی ہے اور اگر خواب ایسی حکومت کا تھا، تو وہ حکومت سے زیادہ رعایا کی فلاح و بہبود سے مشروط ہے جس میں لالچ کی کوئی گنجائش نہیں!وہ بات میں نے ایچ اے خان کے اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب دیکھنے کی وجہ سے کی تھی۔ غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کی حکومت ہے پر اس وجہ سے وہاں پر ہونے والے مظالم جو حماس کر رہی ہے، کم نہیں ہوئے۔
اسرائیلی یہود بھی قیامت کا نقشہ موعود مسیح کی واپسی اور دنیا میں یہودیوں کی بدولت قیام امن نیز اسرائیل کو تمام مذاہب کاگھر بنانے سے منسوب کرتے ہیں۔ انکے مطابق دو ہزار سال بعد اسرائیل کی واپسی منشاء الٰہی کا مظہر ہے۔اسرائیل میں مسلمانوں کی حکومت کے خواب اگر ہیں تو ان کا ایک مذہبی پس منظر موجود ہے۔ قیامت کے آثار کو بیان کرتی ہوئی ایک ڈاکومنٹری میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے جو لڑائی کا نقشہ کھینچا اور میدان بیان کیا ہے، وہاں بنیادی مدعا ہی اسرائیل میں موجود مقامات ، بلکہ پوری دنیا کی مسلمانوں کے ہاتھ میں حکومت کا آنا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی حکومت مسلمان حکمران آج کل کر رہے ہیں ، ایسے حالات میں تو مسلمانوں کے ہاتھ جو ملک ہیں، وہ بھی ان انگریزوں اور غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہوتے جنہوں نے اسلامی شعائر کو ہم سے زیادہ اپنا رکھا ہے اور امانت، دیانت اور سچائی کو اپنے سینوں میں جگہ دے کر اعمال کا بنیادی جزو بنا لیا ہے، تو زیادہ بہتر تھا۔مذہبی پیش گوئیاں اسلام کی پوری سچائی کے ساتھ واپسی کو بیان کرتی ہیں۔ حکومت تو اس کے بعد آتی ہے اور اگر خواب ایسی حکومت کا تھا، تو وہ حکومت سے زیادہ رعایا کی فلاح و بہبود سے مشروط ہے جس میں لالچ کی کوئی گنجائش نہیں!
بے شک۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، سوائے اس کے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی، تینوں ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر فتح ان کی ہوگی۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ میدان ہے جہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا، اس بات کا فیصلہ ہوگا اور سب اس جنگ کو جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔اسرائیلی یہود بھی قیامت کا نقشہ موعود مسیح کی واپسی اور دنیا میں یہودیوں کی بدولت قیام امن نیز اسرائیل کو تمام مذاہب کاگھر بنانے سے منسوب کرتے ہیں۔ انکے مطابق دو ہزار سال بعد اسرائیل کی واپسی منشاء الٰہی کا مظہر ہے۔
مسلمان تو فی الحال یہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ یہود و نصاریٰ کا اتحاد اس قدر پختہ ہے کہ ان کے درمیان اب مزید کوئی جنگ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔۔
بے شک۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، سوائے اس کے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی، تینوں ہی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بالآخر فتح ان کی ہوگی۔ لہٰذا ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی وہ میدان ہے جہاں کون سچا ہے اور کون جھوٹا، اس بات کا فیصلہ ہوگا اور سب اس جنگ کو جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔
اتحاد جتنا بھی پختہ ہو، اسلام، عیسائیت اور یہودیت جو دنیا کے تین اہم مذاہب سمجھے جاتے ہیں، ان کی مذہبی پیشن گوئیاں متفقہ بھی ہیں اورغیر متفقہ بھی اور سب سے بڑی غیر متفقہ پیشن گوئی آخری جنگ کے اختتام کی ہے جس میں دراصل ایک ہی بات ہے کہ جو حق پر ہوگا اس کی جیت ہوگی۔ ہر ایک اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور یہی اختلاف کی بات ہے۔ جنگ کے میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود یہ مذہبی اختلاف کسی بھی ایک فریق کو کسی بھی دوسرے کے ساتھ ہونے کے باوجود الگ سوچنے پر مجبور کرے گا۔ یہاں درست سوال یہ نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ جیتنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں، درست سوال یہ ہے کہ جب یہ آخری معرکہ ہوگا، اس وقت مسلمان کہاں ہوں گے، عیسائیوں اور یہودیوں کا کیا حال ہوگا؟ وہ مستقبل کی بات ہے، آپ چاہے اسے مستقبل قریب بھی کہیں، لیکن یہ وہ حالت ہے جسے کسی نے نہیں دیکھا۔ دیکھے بغیر رائے کیسے دی جاسکتی ہے؟مسلمان تو فی الحال یہ جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ یہود و نصاریٰ کا اتحاد اس قدر پختہ ہے کہ ان کے درمیان اب مزید کوئی جنگ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔
نام فلسطین اور اسرائیل کی تاریخ قریبا ایک جتنی قدیم ہے البتہ اسرائیل کا نام آثار قدیمہ کے حوالہ سے زیادہ پرانا ہے۔ مختلف اقوام نے اس علاقہ کو الگ الگ نام سے یاد کیا ہے۔
1922 میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانوی فلسطین مینڈیٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں موجودہ عرب مملکت اردن شامل تھی۔ اسی سال اسے باقی ماندہ مینڈیٹ سے الگ کر کے ٹرانس اردن اور پھر 1946 میں آزاد مملکت اردن بنا دیا گیا۔ باقی بچے کچھے فلسطین پر یہود کو مقامی حکومت دینے کی کوشش کی گئی جس میں فلسطینی عربوں کی رضامندی شامل نہ ہونے کی وجہ سے 1937 میں پیل کمیشن نےدو الگ ریاستوں میں تبدیل کرنے کا پلان بنایا ۔ البتہ عرب لیڈران نے اس کمیشن پربھی رضا مندی ظاہر نہ کی۔اچھا اس ساری بحث سے قطع نظر کیا "جدیدنام نہاد مہذب دنیا" اتنی وسیع ظرف ، کشادہ دل اور انصاف پسند ہو گئی ہے کہ کسی علاقے یا ملک کی ملکیت کا فیصلہ ان کے حقیقی باشندوں کے حق میں کر سکے ؟
1922 میں خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانوی فلسطین مینڈیٹ کی بنیاد رکھی گئی جس میں موجودہ عرب مملکت اردن شامل تھی۔ اسی سال اسے باقی ماندہ مینڈیٹ سے الگ کر کے ٹرانس اردن اور پھر 1946 میں آزاد مملکت اردن بنا دیا گیا۔ باقی بچے کچھے فلسطین پر یہود کو مقامی حکومت دینے کی کوشش کی گئی جس میں فلسطینی عربوں کی رضامندی شامل نہ ہونے کی وجہ سے 1937 میں پیل کمیشن نےدو الگ ریاستوں میں تبدیل کرنے کا پلان بنایا ۔ البتہ عرب لیڈران نے اس کمیشن پربھی رضا مندی ظاہر نہ کی۔
اسکے معا بعد دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا اور یہ تنازع 1947 تک تعطل کا شکار رہا جب اقوام متحدہ کے زیر نگرانی فلسطین کو ایک عرب اور ایک یہود ریاست میں بانٹنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ یہاں بھی عرب ممالک نے اس قرار داد کی مخالفت کر دی جس پر وہاں موجود عرب اور یہود آبادیوں میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔
برطانیہ نے 14 مئی 1948 کو فلسطین سے انخلا کیا اور اسی روز فلسطینی یہودیوں نے آزاد و خودمختار یہودی ریاست اسرائیل کا اعلان کر دیا۔ جس پر اگلے ہی روز 5 عرب ممالک نے اسے بزور جنگ ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے اور تب سے فلسطینی عرب دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جبکہ وہ فلسطینی جو اسرائیل کی حدود کے اندر رہے وہ آج اسرائیل کے شہری ہیں۔ جبکہ فلسطینی عرب آج تک اپنی ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
میری کل Palestine For Dummies نامی کانفرس میں شرکت ہے جہاں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہو گی۔ وہاں کوئی نئی انفارمیشن ملی تو آپ سے ضرور شیئر کروں گا۔ یاد رہے کہ اس تنازع کا حل اسرائیل کے پاس نہیں فلسطینی عربوں کے پاس ہے۔یہ موضوع کچھ تفصیل طلب ہے اس پر ان شاء اللہ جلد بات کریں گے ۔