میرا کیفیت نامہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

زیک

مسافر
بہن جی ، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، والا معاملہ ہے۔

بہت پرانی بات نہیں ہے، ہم سے صرف ایک نسل پہلے کی بات ہے کہ عورتیں اپنے سسر اورجیٹھ کی آواز بلکہ 'کھنگورا' سن کر ہی گھونگھٹ نکال لیتی تھیں اور ان کے سامنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔لڑکوں کی ہمت نہیں تھی کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سر میں کنگھی کر لیں۔ اور خدا نخواستہ اگر کوئی پتلون پہن کر ،داڑھی مونچھ منڈوا کر سر پر 'بودے' رکھ لیتا تھا تو اس کا چال چلن تو کیا نسب تک مشکوک ہو جاتا تھا، لیکن ہماری نسل کے پروان چڑھتے چڑھتے یہ "اصول" بدل چکے تھے اور ہماری اگلی نسل کے رسم و رواج میں مزید تبدیلی آ چکی ہے اور یونہی یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔
دو تین پشتوں پہلے تو مردوں میں شلوار قمیض بھی کوئی نہیں پہنتا تھا۔
 
بہن جی ، ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، والا معاملہ ہے۔

بہت پرانی بات نہیں ہے، ہم سے صرف ایک نسل پہلے کی بات ہے کہ عورتیں اپنے سسر اورجیٹھ کی آواز بلکہ 'کھنگورا' سن کر ہی گھونگھٹ نکال لیتی تھیں اور ان کے سامنے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔لڑکوں کی ہمت نہیں تھی کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سر میں کنگھی کر لیں۔ اور خدا نخواستہ اگر کوئی پتلون پہن کر ،داڑھی مونچھ منڈوا کر سر پر 'بودے' رکھ لیتا تھا تو اس کا چال چلن تو کیا نسب تک مشکوک ہو جاتا تھا، لیکن ہماری نسل کے پروان چڑھتے چڑھتے یہ "اصول" بدل چکے تھے اور ہماری اگلی نسل کے رسم و رواج میں مزید تبدیلی آ چکی ہے اور یونہی یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔

زمانے میں ثبات تو اک تغیر کو ہی ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ اس متغیر صورت حال کا جھکاؤ انہی لوگوں کی طرف ہو جن کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں؟ نہ ہم سے ہندوؤں کی ہمسائیگی کی بو جاتی ہے اور نہ انگریز کی غلامی کی بساند۔ یہ سب ایسا برا بھی نہیں ہے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کی سوچ کو بھی یوں مقید کیے بیٹھا ہے کہ مذہب کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے یا فقط ذاتی معاملہ کہلا کر ایک کونے میں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
زمانے میں ثبات تو اک تغیر کو ہی ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ اس متغیر صورت حال کا جھکاؤ انہی لوگوں کی طرف ہو جن کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں؟ نہ ہم سے ہندوؤں کی ہمسائیگی کی بو جاتی ہے اور نہ انگریز کی غلامی کی بساند۔ یہ سب ایسا برا بھی نہیں ہے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کی سوچ کو بھی یوں مقید کیے بیٹھا ہے کہ مذہب کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے یا فقط ذاتی معاملہ کہلا کر ایک کونے میں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھا ہے۔
جھکاؤ تو اسی طرف ہو گا جس طرف کا کلچر عروج پر ہے۔
 

یاز

محفلین
زمانے میں ثبات تو اک تغیر کو ہی ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ اس متغیر صورت حال کا جھکاؤ انہی لوگوں کی طرف ہو جن کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں؟ نہ ہم سے ہندوؤں کی ہمسائیگی کی بو جاتی ہے اور نہ انگریز کی غلامی کی بساند۔ یہ سب ایسا برا بھی نہیں ہے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کی سوچ کو بھی یوں مقید کیے بیٹھا ہے کہ مذہب کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے یا فقط ذاتی معاملہ کہلا کر ایک کونے میں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھا ہے۔
کوئی بھی تہذیب اگر xenophobia کی شکار نہ ہو تو وہ دوسری تہذیبوں کے اثرات کو قبول کرتی ہے۔ اور جیسا کہ زیک بھائی نے فرمایا کہ جو تہذیب اس وقت بالادست ہو گی، اسی کے زیادہ اثرات قبول کرنا عین قرین قیاس ہے۔
نیز یہ کہ دوسری تہذیب کے اثرات کبھی بھی اتنے منفی نہیں ہوتے جتنے xenophobic خیالات والے حلقے بتاتے ہیں۔
مثال کے طور پر آج پورا چائنہ کے ایف سی، میکڈونلڈ وغیرہ کھا رہا ہے یا آئی فون استعمال کر رہا ہے تو کیا چائنہ نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
 
کوئی بھی تہذیب اگر xenophobia کی شکار نہ ہو تو وہ دوسری تہذیبوں کے اثرات کو قبول کرتی ہے۔ اور جیسا کہ زیک بھائی نے فرمایا کہ جو تہذیب اس وقت بالادست ہو گی، اسی کے زیادہ اثرات قبول کرنا عین قرین قیاس ہے۔
نیز یہ کہ دوسری تہذیب کے اثرات کبھی بھی اتنے منفی نہیں ہوتے جتنے xenophobic خیالات والے حلقے بتاتے ہیں۔
مثال کے طور پر آج پورا چائنہ کے ایف سی، میکڈونلڈ وغیرہ کھا رہا ہے یا آئی فون استعمال کر رہا ہے تو کیا چائنہ نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
اچھا میں اب سمجھا۔
آپ کے ایف سی اور میکڈونلڈ وغیرہ کو "ثقافتی تبدیلی" خیال فرماتے ہیں۔:)
 

محمد وارث

لائبریرین
زمانے میں ثبات تو اک تغیر کو ہی ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ اس متغیر صورت حال کا جھکاؤ انہی لوگوں کی طرف ہو جن کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں؟ نہ ہم سے ہندوؤں کی ہمسائیگی کی بو جاتی ہے اور نہ انگریز کی غلامی کی بساند۔ یہ سب ایسا برا بھی نہیں ہے مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کی سوچ کو بھی یوں مقید کیے بیٹھا ہے کہ مذہب کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے یا فقط ذاتی معاملہ کہلا کر ایک کونے میں گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھا ہے۔
اس کا سب سے آسان حل تو یہ ہے کہ آپ زمانے کو اپنی طرف جھکا لیجیے!
 

عثمان

محفلین
اچھا میں اب سمجھا۔
آپ کے ایف سی اور میکڈونلڈ وغیرہ کو "ثقافتی تبدیلی" خیال فرماتے ہیں۔:)
ثقافتی تبدیلی محض لباس ہی نہیں بلکہ پکوان سمیت زندگی کے دیگر عناصر تک پھیلی ہوتی ہے۔
محفل میں تو ایک دھاگہ موجود ہے جہاں اراکین مغربی کھانوں کے مقابلے میں پنجاب کے روایتی کھانوں کی کم ہوتی مقبولیت پر کُڑھ رہے ہیں۔
 
ثقافتی تبدیلی محض لباس ہی نہیں بلکہ پکوان سمیت زندگی کے دیگر عناصر تک پھیلی ہوتی ہے۔
محفل میں تو ایک دھاگہ موجود ہے جہاں اراکین مغربی کھانوں کے مقابلے میں پنجاب کے روایتی کھانوں کی کم ہوتی مقبولیت پر کُڑھ رہے ہیں۔
جی عثمان بھائی پکوان وغیرہ جیسے معاملات میں یہ تبدیلیاں تو بالکل بھی معیوب نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی مفر ہے۔
البتہ میں اس سے مراد وہ اصول معاشرت لیتا ہوں جو کسی بھی تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اصول معاشرت ہیں جن کو شریعت اسلامی میں فرض وواجب قرار دیا گیا ہے اور جن کے خلاف کو حرام یا مکروہ۔ انہی میں "نقالی" وغیرہ معیوب ہے۔ اور جتنی بھی "عالمگیریت" ہوجائے، ان میں تبدیلی سے بہرحال بچا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ باقی چیزیں علاقائی اور زمانی فرق سے بدلتی رہتی ہیں۔ لباس ہی کو لیجیے کہ خود اسلامی معاشروں میں اس کی بےشمار صورتیں رائج ہیں۔
 

عثمان

محفلین
جی عثمان بھائی پکوان وغیرہ جیسے معاملات میں یہ تبدیلیاں تو بالکل بھی معیوب نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی مفر ہے۔
البتہ میں اس سے مراد وہ اصول معاشرت لیتا ہوں جو کسی بھی تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں۔
اس تناظر میں اسلامی تہذیب کی بنیاد وہ اصول معاشرت ہیں جن کو شریعت اسلامی میں فرض وواجب قرار دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کو حرام یا مکروہ۔ انہی میں "نقالی" وغیرہ معیوب ہے۔ اور جتنی بھی "عالمگیریت" ہوجائے، ان میں تبدیلی سے بہرحال بچا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ باقی چیزیں علاقائی اور زمانی فرق سے بدلتی رہتی ہیں۔ لباس ہی کو لیجیے کہ خود اسلامی معاشروں میں اس کی بےشمار صورتیں رائج ہیں۔
میری رائے میں انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور تب ہی آگے بڑھتے ہیں۔ تہذیب اور اس کے اصول بھی کوئی جامد شے نہیں ہے، بلکہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہ تو آپ کی پسند نا پسند ہے کہ کچھ باتوں سے بیزار ہو کر اسے نقالی کے زمرے میں ڈالیں اور کچھ باتوں کو اطمینان سے تبدیلی کہہ کر قبول کر لیں۔
 
میری رائے میں انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور تب ہی آگے بڑھتے ہیں۔ تہذیب اور اس کے اصول بھی کوئی جامد شے نہیں ہے، بلکہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں رہتے ہیں۔ یہ تو آپ کی پسند نا پسند ہے کہ کچھ باتوں سے بیزار ہو کر اسے نقالی کے زمرے میں ڈالیں اور کچھ باتوں کو اطمینان سے تبدیلی کہہ کر قبول کر لیں۔
اگر بیزار ہونے والوں کے پاس اس چیز سے بیزار ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ ہے تو یہ ایک قابل قدر بات ہے۔ (اور یہاں ایسا ہی ہے) بصورت دیگر اس بیزاری کا کوئی جواز نہیں (جیسے پکوان وغیرہ)
 

یاز

محفلین
شکار ہو تو بھی اثرات تو ہوتے رہتے ہیں
جی جی ہوتے ہی۔ تبھی ہم نے "قبول کرنے" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یعنی اثرات تو تقریباً ہر ایک پہ ہوتے ہیں۔ کچھ البتہ ان کو قبول کرتے ہیں، کچھ "مستحکم تہذیبی روایات" کے تناظر میں ان کا انکار کرتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
لباس میں اس قدر بدلاو آگیا ہے کہ خواتین کو خاص طور پہ بچیوں کو دیکھ کے ہول اٹھتا ہے کہ کہاں خاتمہ ہوگا اس سب کا!!!
دل چاہتا ہے کہ اس حوالہ سے کچھ لکھا جائے۔
کافی عرصہ بعد کسی کام سے فیس بک کھولی تو اپنی ایک سہیلی کی کینیڈا میں رہائشی بہن کی وال پہ ایک پوسٹ پڑھی۔باہر کے کسی ملک کے بندہ نے وہ تحریر لکھی تھی۔اور اس پہ مختلف کمنٹ دینے والے بھی سب بھی ان ہی کے جیسے لگتے تھے۔
میں حیران ہوئی کہ اس بندے نے بہت سبھاو سے بچیوں کے نازیبا لباس کے حوالے سے بات کی۔اور سب نے ان باتوں سے اتفاق کیا۔
اور ہم بھی یہاں یہی سب کر رہے ہیں۔
چلیں ہم فلاں کے جیسے لباس زیب تن کریں مگر وہ ساتر تو ہوں۔
ہم اپنی بچیوں کو باہر بھیجتے وقت دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح کے لباس میں ہیں؟
نہیں۔
تعلیمی اداروں سے منسلک لوگ ان تبدیلیوں کے بہت برے اثرات سے بہت حد تک واقف ہیں۔
 

عثمان

محفلین
اگر بیزار ہونے والوں کے پاس اس چیز سے بیزار ہونے کی کوئی ٹھوس وجہ ہے تو یہ ایک قابل قدر بات ہے۔ (اور یہاں ایسا ہی ہے) بصورت دیگر اس بیزاری کا کوئی جواز نہیں (جیسے پکوان وغیرہ)
نوے کی دہائی میں کچھ بزرگ لوگ برگر اور سینڈوچ کے روٹی کی طرح نوالے توڑ کے کھاتے تھے کہ اس کے بغیر کھانا ان کے نزدیک بدتہذیبی تھی۔ آج کل پاکستان میں کیا رواج ہے؟ برگر، سینڈوچ اور پیزا کیسے کھایا جاتا ہے؟ جھینگا اور کیکڑا کھایا جاتا ہے؟
 

زیک

مسافر
کافی عرصہ بعد کسی کام سے فیس بک کھولی تو اپنی ایک سہیلی کی کینیڈا میں رہائشی بہن کی وال پہ ایک پوسٹ پڑھی۔باہر کے کسی ملک کے بندہ نے وہ تحریر لکھی تھی۔اور اس پہ مختلف کمنٹ دینے والے بھی سب بھی ان ہی کے جیسے لگتے تھے۔
میں حیران ہوئی کہ اس بندے نے بہت سبھاو سے بچیوں کے نازیبا لباس کے حوالے سے بات کی۔اور سب نے ان باتوں سے اتفاق کیا۔
مسئلہ پاکستان میں تھا یا کینیڈا میں؟
 

زیک

مسافر
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top