الشفاء
لائبریرین
آپ کے تو "صرف" بیس ہیں۔ ہم ان کی بات کر رہے تھے۔۔۔گو آپ نے میرا زمانہ تین سال آگے کر دیا
چند ماہ ہوئے میں بھی 23 سال پرانی کو لے کر گیا تھا
آپ کے تو "صرف" بیس ہیں۔ ہم ان کی بات کر رہے تھے۔۔۔گو آپ نے میرا زمانہ تین سال آگے کر دیا
چند ماہ ہوئے میں بھی 23 سال پرانی کو لے کر گیا تھا
تو پھر ہمت کی مبارک باد بھی انہی کو دیں ناں!آپ کے تو "صرف" بیس ہیں۔ ہم ان کی بات کر رہے تھے۔۔۔
میرے خیال میں رفاقت تو مردانہ نام ہے۔قبلہ-23 سال کی "رفاقت" ساتھ ہو گی تو یہ ساری چیزیں اچھی ہی لگنے لگیں گی نا۔ آپ بھی ہمت کریں ۔۔۔
میں اکثر سوچتی ہوں۔۔
کتنا اچھا ہے کہ
" اللہ کو وضاحتیں نہیں چاہیں"۔
کتنا اچھا ہے کہ
"وہ بن کہے سن لیتا ہے"۔
وہ بس دل دیکھتا ہے۔
دل دیکھ لے تو دل پھیر دیتا ہے۔
اس کے پاس جائیں تو وقت کی قید سے آزادی ہوتی۔
جتنا بھی بول لو "وہ" نہیں کہتا کہ بس کرو۔
میں سن کر تنگ آگیا ہوں۔
نہ بھی بولو تو وہ سن لیتا ہے۔
دلوں کو الہام دیتا ہے۔
رو لو ،تو مضبوطی عطا کرتا ہے۔
سہارا دیتا ہے۔ وہ مذاق نہیں اڑاتا۔
دھتکارتا نہیں ہے۔
میں اکثر سوچتی ہوں۔
یہ کتنا بہتر ہے ۔ اس امید کا ہونا۔۔ اس یقین کا ہونا کہ۔۔
"وہ" ہے۔۔!!!
صبح کا شہزادہپتوکی سے پودے لئے۔
ہار سنگھار
رات کی رانی
دن کا راجا
اور ایک اور جس کا نام یاد نہیں۔
صبح کا شہزادہ
شام کی شہزادی
میری نہیں آپی۔۔ میں اتنی ذہین کہاںواقعی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اپنے ہونے کا ایمان دیا۔
اور اس رشتہ سے بڑھ کے کوئی رشتہ نہیں۔
ہادیہ! یہ نظم کس کی ہے؟
کیا آپ کی؟
بہت پیاری ہے۔
کاش کبھی ہم نے 'کاٹے' کا استعمال کیا ہوتا تو آج ایک عدد لگا ہی دیتے آپ کے مراسلے پر۔ شدید غیر متفق!اجی کہاں صاحب، بیس سالہ پرانی بیوی کو ساتھ لے جانے سے بہتر ہے میں 'کام' ہی کر لوں۔
دوپہر کا وزیرِ باتدبیرپتوکی سے پودے لئے۔
ہار سنگھار
رات کی رانی
دن کا راجا
اور ایک اور جس کا نام یاد نہیں۔
آپ کا "کاٹا" سر آنکھوں پر لیکن اپنے "کاٹنے" والوں کو میں ہی جانتا ہوں قبلہ!کاش کبھی ہم نے 'کاٹے' کا استعمال کیا ہوتا تو آج ایک عدد لگا ہی دیتے آپ کے مراسلے پر۔ شدید غیر متفق!
السلام علیکمافسردگی سی افسردگی ہے۔ شہید ہونے والے بچوں کا غم تو تھا ہی، اس کے ساتھ کل جب مغرب کے لیے مسجد پہنچا تو معلوم پڑا کہ میرے معاون صاحب جو ظہر اور عصر کی نماز پڑھاتے ہیں، نماز ظہر کے لیے آئے ہی نہیں۔ مجھے اطلاع کی نہ کسی کو بھیجا۔ نتیجتاً نمازی مسجد کے باہر بیٹھے رہے اور پھر چلے گئے۔
بہت افسوس ہوا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ انہیں ڈانٹوں یا (ان کی ایسی مسلسل لاپرواہیوں کی وجہ سے) ان سے معذرت کرلوں۔
سوچتا رہا، آج ظہر سے کچھ پہلے فون کیا کہ حضرت! آج نماز کے لیے جائیں گے؟ کہنے لگے کہ میں تو لاہور آیا ہوا ہوں۔ ( گویا آج بھی مسجد بند ہونے جا رہی تھی۔) دھیمے لہجے میں عرض کیا کہ کل مسجد میں ظہر کی نماز نہیں ہوئی، نمازی بھی بہت پریشان ہوئے۔
اتنے ہی دھیمے لہجے میں جواب آیا کہ اوہو! اچھا نماز ہی نہیں ہوئی؟ مجھے فلاں کام میں ایسی مصروفیت رہی کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔
اب مسلسل فکر ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کروں۔
ایک طرف نماز کا معاملہ ہے دوسری طرف ماتحت سے اچھے سلوک کا۔
آپ کی بات درست ہے، لیکن انسان ہی انسان کا دشمن ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب انسانوں نے وفاداری کی مثال دینی ہو تو کتے کی دیتے ہیں!انسان اور انسانی تعلقات ہر چیز پہ مقدم ہیں، لہٰذا ہمیشہ انسانوں اور انسانی تعلقات پہ انویسٹ کریں۔