"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عمر سیف

محفلین
اِک بار مجھے آواز تو دے
ترے لمس کی خوشبو پہنوں گا
ترے درد کو ہار بناؤں گا
اک بار مجھے آواز تو دے
میں صدیوں پار سے آؤنگا

ابھی کاغذ پر میں لکھتا ہوں
بے صوت ہے میرا شہرِ سخن
جب دھڑکن لفظ میں‌گونجے گی
میں تب شاعر کہلاؤں گا

اعتبار ساجد
 

ظفری

لائبریرین

جسے بار بار ملے تھے تُم، وہ میرے سوا کوئی اور تھا
میرے دل کو تابِ نظر کہاں، تُمہیں دیکھتا کوئی اور تھا

کُھلا ہمدموں پہ یہ راز کب، میں تھا ایک عمر سے جاں بلب
مجھے روز ملتے تھے لوگ سب، مگر آشنا کوئی اور تھا

کبھی روشنی مجھے کی عطا، کبھی سائے ساتھ لگا دیئے
کبھی سب چراغ بُجھا دیئے، وہ تُمہی تھے، یا کوئی اور تھا

سبھی ربط بےسرو پا ہوئے، نہ مِلےتُجھ سے نہ جُدا ہوئے
نہ الگ تھا تیرا جہاں کوئی، نہ میرا خُدا کوئی اور تھا​
 

عمر سیف

محفلین
مجھ کو بھی خوفِ ترکِ تعلق نے آ لیا
وہ بھی اسی خیال سے اوروں کی ہوگئی
پہلے تو اس کے ہاتھ کی مشعل بجھی وصی
پھر یوں ہوا کہیں میری تقدیر کھو گئی
 

پاکستانی

محفلین
مشکل ہے شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آگئی ہے ہوتی ہوئی سر سے

برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر میرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے

اس بار جو ایندھن کے لئیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
 

الف عین

لائبریرین
پاکستانی نے کہا:

اس بار جو ایندھن کے لئیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
اپنا ایک پرانا شعر یاد آگیا۔ سن لیں
ایک چڑیا اپنے گھر کو ڈھونڈھتی ہے دیر سے
پہلے اس بجلی کے کھمبے کی جگہ اک پیڑ تھا
 

حجاب

محفلین
سفر میں جب کبھی تنہا کوئی تم کو نظر آئے
کسی کی یاد میں کھو کر تمہاری آنکھ بھر آئے
تو پھر یہ جان لینا زندگی تنہا نہیں کٹتی
اکیلے شخص سے سوچو کبھی بستی نہیں بستی
ہمیں ہر دم ہر ایک لمحہ کسی کے ساتھ رہنا ہے
کسی کی یاد کا دامن ہمارے ہاتھ رہنا ہے
یہ دن تھک ہار کر جب رات کی بانہوں میں آجائے
یہ ساون اور بھادوں کا ملن جب دل کو بھا جائے
کہیں بھنورے کی باتوں سے کلی تھوڑی سی کِھل جائے
کہیں بچھڑا ہوا ساتھی اچانک تم کو مل جائے
یہ سارے استعارے ہیں سبھی چاہت کے مارے ہیں
کسی کا تم سہارا ہو کسی کے ہم سہارے ہیں
خدا میں مانتا ہوں اس جہاں میں ایک تنہا ہے
مگر اُس نے جہاں میں ہر طرف جوڑے اُتارے ہیں۔ (ڈاکٹر سکندر علی شیخ )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شائستہ

محفلین
یہ کیسا کھیل ہے تقدیر کی بے نام بازی کا
کہ جو ہارے سوہارے ہیں
مگر جو جیت جاتے ہیں
انھیں بھی اک نئی الجھن کی دلدل گھیر لیتی ہے
کہ اک مشکل کے بعد اک اور مشکل گھیر لیتی ہے
سمجھنے کے لیے آئیں
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
‌“ کسی لمحے کسی شخص کو پانا ہماری زندگی سے بھی زیادہ بیش قیمت تھا
ہم اس آرزو میں ساری دنیا بھول بیٹھے تھے
اسی کی دھن میں جیتے تھے اسی کے غم میں‌مرتے تھے
تو پھر کچھ یوں ہوا اک روز اس کو پالیا ہم نے
اسے رنگوں کی ڈولی میں بٹھا کر گھر میں لے آئے
تصور کی ہر اک خوشبو گل منظر میں لے آئے
کہانی آگے چلتی ہے
تو ہوتا اس طرح ہے زندگی کے کارخانے میں
دنوں کے آنے جانے میں
جہاں کے ان گنت کاموں کا چکر چلنے لگتا ہے
بدن تھکتا ہے
آنکھیں دیر تک بیدار رہنے سے سلگتی ہیں
زباں اک تاجرانہ اور مسلسل جھوٹ
کی تکرار سے اکتانے لگتی ہے
مگر مجبور ہوتی ہے
کہ دنیا کا دباؤ اس کو رکنے نہیں دیتا
کوئی بے کار سا قصہ وہ پھر سے دوہرانے لگتی ہے
تھکن اور نیند کی ملتی حدوں میں، سرد بستر پر
سحر سے رات تک کی بے نتیجہ گفتگو
یاد آنے لگتی ہے
تو اس لمحے
وہ عمروں کی ریاضیت کا ثمر، وہ گوہر یکتا
اسی شکنوں بھرے بستر کے اک حصے میں ہوتا ہے
مگر محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے وہ ہزاروں میل کی دوری پہ رہتا ہے
اسی دوری کے صحرا میں کئی راتیں بکھرتی ہیں
کئی دن فوت ہوتے ہیں
تو پھر اک دن
کسی بے نام سی آہٹ کی
ہمارے ہست کی خالی گلی میں گونجتی ہے
اور ہمیں بیدار کرتی ہے ، بتاتی ہے
کہ ہم جس گھر میں رہتے ہیں
وہاں کچھ خوبصورت خواب بھی آباد ہوتے تھے
چلیں ہم فرض کرتے ہیں
یہ سب کچھ اک کہانی ہے
مگر کتنی پرانی ہے!!!!!!
 

ظفری

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت نظم ہے شائستہ جی ۔۔۔۔ یہ نظم تو میرے دھاگے “ خوبصورت نظمیں “ کی زینت ہونی چاہیے تھی ۔
اور دیکھیں ۔۔ شمشاد بھائی ۔۔ آپ کی شاعری کے نشے کے بھرم کے لیے اب کتنا مواد موجود ہے ۔ امید ہے آ پ کو پسند آئے گا ۔
 

شائستہ

محفلین
ظفری نے کہا:
بہت ہی خوبصورت نظم ہے شائستہ جی ۔۔۔۔ یہ نظم تو میرے دھاگے “ خوبصورت نظمیں “ کی زینت ہونی چاہیے تھی ۔
اور دیکھیں ۔۔ شمشاد بھائی ۔۔ آپ کی شاعری کے نشے کے بھرم کے لیے اب کتنا مواد موجود ہے ۔ امید ہے آ پ کو پسند آئے گا ۔
شکریہ ظفر،،، کسی نے تو پڑھی اور داد بھی دی ،ورنہ ، اس دھاگے پر بھی ایک نظم پوسٹ کرتی ہوں ،،، امید ہے پسند آئے گی ،،،پھر بات ہوگی انشااللہ ‌
 

شائستہ

محفلین
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خاموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئ ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعوا کیوں کریں ہم
وفا ، اخلاص ، قربانی ، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
 

شائستہ

محفلین
ابکے موسم میں تو ہر درد کے جھرنے پُھوٹے
یاد کی ضرب پڑی، زخم کے ٹانکے ٹُوٹے

ساتھ دینے کو تو تیّار ہے ہمّت اپنی
ذوقِ پرواز تو ہے، پَر ہی ہمارے ٹوٹے

چند سپنے جوچُھپائے تھے خزانوں کی طرح
ہائے، اُس شخص نے وہ بھی تو خزانے لُوٹے

کسی دشمن سے تو بے سود ہے شکوہ کرنا
ہے گلہ چند رفیقوں سے، جو ہم سے روٹھے

تیری دُنیا میں تو کانٹوں کے سوا کچھ نہ ملا
مجھے لگتا ہے کہ جنّت کے بھی وعدے جھوٹے
 

شمشاد

لائبریرین
شائستہ جی جب آدمی نشے میں ہو تو داد دینے کا خیال ہی کسے رہتا ہے۔ ویسے بہت ہی خوبصورت غزلیں ہیں، اگر شاعر کا نام بھی لکھ دیا کریں تو نشہ دوبالا ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آرزوِ جاں لکھوں کہ جانِ آرزو
تُو ہی بتا دے ناز سے ایمانِ آرزو

ایمان و جاں نثار تیری اک نگاہ پر
تُو جانِ آرزو ہے تُ ایمانِ آرزو

اک وہ کہ آرزوؤں پے جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمانِ آرزو

آنکھوں سے جوئے خوں ہے رواں دل ہے داغ داغ
دیکھے کوئی بہارِ گلستانِ آرزو
(اختر شیرانی)
 

پاکستانی

محفلین
انجان شہر ميں ہم انجان ہوگئے
سينچے تھے جو باغ پيار کے ويران ہوگئے

بھروسہ بہت تھا اپني عبادتوں پہ ہم کو
ايسے گرے عشق ميں بے ايمان ہوگئے

علاہ فرقت ميں نکل پڑے صحرائوں ميں
پاگل ديوانہ عاشق ميرے نام ہوگئے

خود ہي چڑھا کے ميرے جذبات کو سولي پر
اب پوچھتے ہيں تم کيوں بے جان ہوگئے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top