میرے پسندیدہ اشعار

سارا

محفلین
ہم مبتلائے عشق تھے ہر گز نہ کہہ سکے
خاموش ہی رہے کہ تقاضا وفا کا تھا

ترکِ تعلقات کے کیا اسباب بتائیں
بس ہو گئے جدا کہ سوال انا کا تھا۔۔
 

عمر سیف

محفلین
پھول جب کِھل چکا تو کہنے لگا :
اب میرا حُسن میرے بس میں نہیں
اب میں اپنی دسترس میں نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
گلی میں درد کے پرزے تلاش کرتی تھی
میرے خطوط کے ٹکڑے تلاش کرتی تھی

بھولے کون اذیت پسندیاں اس کی
خوشی کے ڈھیر میں صدمے تلاش کرتی تھی
(وصی)
 

شمشاد

لائبریرین
روز پڑھتا ہوں الحمد سے والناس تک
کون کہتا ہے میں چہروں کی تلاوت نہیں کرتا
 

عمر سیف

محفلین
اس بات پہ دُنیا سے میری بنتی ہی نہیں ہے
کہتی ہے کہ تلوار اُٹھا اور قلم رکھ
میں جب بھی کہیں راہ میں گرنے لگا تابش
آواز سی آئی مرے قدموں پہ قدم رکھ​
 

شمشاد

لائبریرین
آج کی رات

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
(فیض)
 

سارا

محفلین
تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا عرضِ وفا کے سنتے ہی
پہلے کون قریب تھا ہم سے اب تو اور بعید ہوا

دنیا کے سب کام کاج چھوڑے نام پہ تیرے انشاء نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے تیرا عشق مزید ہوا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آئیں گے
زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آئیں گے

پہچان لو تمام فقیروں کے خدوخال
کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آئیں گے
 

عمر سیف

محفلین
گاؤں مٹ جائیں گے، شہر جل جائے گا
زندگی تیرا چہرہ بدل جائے گا

ہم غریبوں کی اس بھیڑ میں تم کہاں
یہ کلف دار کرتا مَسل جائے گا

آگ پر رقص کرنے میں یکتا ہے تو
برف پر پاؤں تیر ا پِھسل جائے گا

میں اسی فکر میں رات سایا نہیں
چاند تاروں کو سورج نگل جائے گا

اب اسی دن لکھوں گا دُکھوں کی غزل
جب مرا ہاتھ آہن میں ڈھل جائے گا

کچھ لکھ مرثیہ ، مثنوی یا غزل
کوئی کاغذ ہو پانی میں گل جائے گا

میں اگر مسکرا کے انہیں دیکھ لوں
قاتلوں کا ارادہ بدل جائے گا​
 

شمشاد

لائبریرین
میرے ہم نفس، میرے ہمنوا، مجھے دوست بن کے دغا نے دے
میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب، مجھے زندگی کی دعا نہ دے
(شکیل بدایونی)
 

عمر سیف

محفلین
تمہاری یاد میں ہم
موسمِ گُل میں
جہاں بھی کہیں پھول آتے ہیں
جمع کرتے ہیں اُنہیں
اور وہیں بھول آتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
آبلہ پاگھومتا ہوں وادئبیداد میں
درد کس نے رکھ دیا ہے عشق کی روداد میں؟
جان سی اک پڑ گئی ہے شکوۂ صیاد میں
ہے دعا کا رنگ شامل نالہ و فریاد میں!
(سرور عالم راز سرور)
 

عمر سیف

محفلین
سنو ناراض ہو ہم سے
مگر ہم وہ ہیں
جن کو تو منانا بھی نہیں آتا
کسی نے آج تک ہم سے محبت جو نہیں کی ہے
محبت کس طرح ہوتی ہے
ہمارے شہر کے اطراف میں تو سخت پہرا تھا
خزاؤں کا
اور اُس کی فصیلیں زرد بیلوں سے لدی ہیں
اور اُن میں نہ کوئی خوشبو
نہ کوئی ُُپھول تم جیسا
کہ مہک اُٹھتے ہمارے دل وجاں
جس کی قربت سے
ہم ایسے شہرِ پریشاں کی ویراں گلیوں میں
کسی سُوکھے ہوئے زرد پتے کی طرح تھے
کہ جب ظالم ہَوا
جب ہم پر اپنے قدم رکھتی تھی
تو اُس کے پاؤں کی نیچے ہمارا دَم نکل جاتا
مگر پت جھڑ کا وہ موسم
سُنا ہے ٹل چکا اب تو
مگر جو ہار ہونا تھی
سو وہ تو ہو چکی ہم کو
سنو۔ !
ہارے ہوئےلوگوں سے تو رُوٹھا نہیں کرتے
 

شمشاد

لائبریرین
پھر زندگی شکارِ اُمید وفا ہوئی
پھر شمعِ انتظار سرِ شام جل گئی

تا عمر اپنی ذات سے باہر نہ جا سکے!
ا ہلِ خرد سے اُنکی خُودی چال چل گئی

سرور نے تیری یاد میں اک عمر کی تمام
اور لوگ کہہ رہے ہیں تمنا نکل گئی​
(سرور عالم راز سرور)
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب شمشاد۔

اس رات آسمان کی رنگت عجیب تھی
اس رات اپنے گھر میں کوئی سو نہیں سکا
 

شمشاد

لائبریرین
دل نے دہرائے کتنے افسانے
یاد کیا آگیا خدا جانے

ایک یاد آئی، ایک یاد گئی
دل میں ہیں سینکڑوں پری خانے

کس کو بھولوں کسے میں یاد رکھوں
سارے چہرے ہیں جانے پہچانے

یاد کیا آگیا ستم کوئی؟
آپ بیٹھے ہیں یوں جو انجانے

پہلے اپنی نظر کو سمجھاؤ
پھر مرے دل کو آنا سمجھانے

بیکسی بے بسی سبک حالی
چُن رہا ہوں نصیب کے دانے

ہائے مجبوریاں محبت کی
کوئی کیا جانے کوئی کیا مانے

آرزو کیا ہے اور کیا ہے امید
سرورِ نامراد کیا جانے
(سرور عالم راز سرور)​
 

Farrukh

محفلین
ھم نے دیکھا ہی نہیں بولتے انکو اب تک
کون کہتا ہے کہ پتھر کے صنم جھوٹے ہیں
کچھ تو ہے بات جو تحریروں میں تاثیر نہیں
جھوٹے فنکار نہیں ہیں تو قلم جھوٹے ہیں
ان سے ملیئے تو خوشی ہوتی ہے ان سے مل کر
شہر کے دوسرے لوگوں سے جو کم جھوٹے ہیں
 

زینب

محفلین
بھڑ کائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے سمندر تیری آنکھیں

پھر کون بھلا دادِ تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھر کر تیری آنکھیں

بو جھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں اترکر دل میں تیری آنکھیں

اب تک میری یادوں سے مٹاے نہیں مٹتا
بھیگی ہوی اک شام منظر ،تیری آنکھیں

ممکن ہو تو اک تاذہ غزل اور میں کہِ لوں
پھر اُوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں

یوں دیکھتے اُسے رہنا آچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر میری آنکھیں
 
Top