کب تلک شب کے اندھیروں میں سحر کو ترسے
وہ مسافر جو بھرے گھر میں شہر کو ترسے
آنکھ ٹہرے ہُوئے پانی سے بھی کتراتی ہے
دل وہ رہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے
اب کے اِس طور مسلّط ہو اندھیرا ہر سُو
ہجر کی رات مرے دیدہء تر کو ترسے
اُس کو پا کر بھی اُسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
جیسے پانی میں کوئی سیپ گہر کو ترسے
ناشناسائی کے موسم کا اتر تو دیکھو!
آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے
شورِ صر صر میں جو سَر سبز رہی ہے *محسن*
موسمِ گل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے