تھا وہ جنگل کہ نگر یاد نہیں
کیا تھی وہ راہ گزر یاد نہیں
یہ خیال آتا ہے میں خوش تھا بہت
کس طرف تھا مرا گھر یاد نہیں
کیا تھی وہ شکل پہ بھولی تھی بہت
پیارا سا نام تھا پر یاد نہیں
زخموں کے پھول ہیں دل میں اب بھی
کس نے بخشے تھے مگر یاد نہیں
اک گھنی چھاؤں میں دن بیتا ہے
شب کہاں کی تھی بسر یاد نہیں
ایک لمحہ تو دھڑکتا ہے ضرور
کئی صدیوں کا سفر یاد نہیں
طاق تھے داستاں کہنے میں عبیدؔ
اب بجز دیدۂ تر یاد نہیں
جناب اعجاز عبیدؔ