میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
تھا وہ جنگل کہ نگر یاد نہیں
کیا تھی وہ راہ گزر یاد نہیں

یہ خیال آتا ہے میں خوش تھا بہت
کس طرف تھا مرا گھر یاد نہیں

کیا تھی وہ شکل پہ بھولی تھی بہت
پیارا سا نام تھا پر یاد نہیں

زخموں کے پھول ہیں دل میں اب بھی
کس نے بخشے تھے مگر یاد نہیں

اک گھنی چھاؤں میں دن بیتا ہے
شب کہاں کی تھی بسر یاد نہیں

ایک لمحہ تو دھڑکتا ہے ضرور
کئی صدیوں کا سفر یاد نہیں

طاق تھے داستاں کہنے میں عبیدؔ
اب بجز دیدۂ تر یاد نہیں

جناب اعجاز عبیدؔ
 

سیما علی

لائبریرین
اُس کے خال و خد کی تشبیہیں نہ پوچھ
رنگ، رِم جھم، روشنی، رعنائیاں
پوچھ مت محسنؔ اندھیرے ہجر کے
چاند سی کیا صورتیں گہنائیاں
 

سیما علی

لائبریرین
نیند ہو نبض میں بھٹکتی ہوئی
خواب۔۔۔۔جو زندگی سے بہتر ہو
رات ہو اور بات چلتی رہے
رات ہو اور زندگی بھر ہو
نصر اللہ حارث
 

سیما علی

لائبریرین
دیکھنے کی تو کسے تاب ھے لیکن اب تک
جب بھی اس راہ سے سے گزرو تو کسی دکھ کی کسک

ٹوکتی ھے کہ وہ دروازہ کھلا ھے اب بھی
اور اس صحن میں ھر سو یونہی پہلے کی طرح

فرش نومیدی دیدار بچھا ھے اب بھی
اور کہیں یاد کسی دل زدہ بچے کی طرح

ہاتھ پھیلائے ھوئے بیٹھی ھے فریاد کناں
دل یہ کہتا ھے کہ کہیں اور چلے جائیں جہاں

کوئی دروازہ عبث وا ھو نہ بیکار کوئی
یاد فریاد کا کشکول لیے بیٹھی ھو

محرم حسرت دیدار ھو دیوار کوئی
نہ کوئی سایہ گل ہجرت گل سے ویراں

یہ بھی کر دیکھا ھے سو بار کہ جب راھوں میں
دیس پردیس کی بے مہر گزر گاھوں میں

قافلے قامت و رخسار و لب و گیسو کے
پردہ چشم پہ یوں اترے ھیں بے صورت و رنگ

جس طرح بند دریچوں پہ گرے بارش سنگ
اور دل کہتا ھے بار چلو لوٹ چلو

اس سے پہلے کہ وہاں جائیں تو یہ دکھ بھی نہ ھو
یہ نشانی کہ وہ دروازہ کھلا ھے اب بھی

اور اس صحن میں ہر سو یونہی پہلے کی طرح
فرش نومیدی دیدار بچھا ھے اب بھی
فیض احمد فیض
 

سیما علی

لائبریرین
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گا ر ہوں کافر نہیں ہوں میں
غالب
 

سیما علی

لائبریرین
حسن ہیرے کی کنی ہو جیسے
اور مری جاں پہ بنی ہو جیسے
تیری چتون کے عجب تیور ہیں
سر پہ تلوار تنی ہو جیسے
ریزہ ریزہ ہوئے مینا و ایاغ
رند و ساقی میں ٹھنی ہو جیسے
اپنی گلیوں میں ہیں یوں آوارہ
کہ غریب الوطنی ہو جیسے
ہر مسافر ترے کوچے کو چلا
اس طرف چھاؤں گھنی ہو جیسے
تیری قربت کی خمار‌ آگینی
رت شرابوں میں سنی ہو جیسے
یہ کشاکش کی مئے مرد افگن
تیری پلکوں سے چھنی ہو جیسے
افضل پرویز
 

سیما علی

لائبریرین
ملے ہیں مجھکومیرے خواب کی تعبیر کے ٹکڑے
مجھے بھیجے ہیں اس نے میری ہی تصویر کے ٹکڑے

مضطر جانثار اختر
 
Top