میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے

دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخمِ رشک کو رُسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے
مرزا اسد اللہ خاں غالب
 

سیما علی

لائبریرین

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے

کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے

گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے

شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے

ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے

کس طرح کاٹے کوئی شب‌ہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے

عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے
 

سیما علی

لائبریرین
ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے جائیے
ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے

بن کے خوشبو کی اداسی رہیے دل کے باغ میں
دور ہوتے جائیے نزدیک آتے جائیے

جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجیے مرا
یاد کا سر و ساماں جلاتے جائیے

رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے

زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملیے اور مل کر دور جاتے جائیے

آخری رشتہ تو ہم میں اک خوشی اک غم کا تھا
مسکراتے جائیے آنسو بہاتے جائیے

وہ گلی ہے اک شرابی چشم کافر کی گلی
اس گلی میں جائیے تو لرکھڑاتے جائیے

آپ کو جب مجھ سے شکوا ہی نہیں کوئی تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے لگاتے جائیے

کوچ ہے خوابوں سے تعبیروں کی سمتوں میں تو پھر
جائیے پر دم بہ دم برباد جاتے جائیے

آپ کا مہمان ہوں میں آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروت تو پلاتے جائیے

ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اس گھر میں جانا نہ لگاتے جائیے

جون ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
کیا کہہ گئی کسی کی نظر کچھ نہ پوچھئے
کیا کچھ ہوا ہے دل پہ اثر کچھ نہ پوچھئے

وہ دیکھنا کسی کا کنکھیوں سے بار بار
وہ بار بار اس کا اثر کچھ نہ پوچھئے

رو رو کے کس طرح سے کٹی رات کیا کہیں
مر مر کے کیسے کی ہے سحر کچھ نہ پوچھئے

اخترؔ دیار حسن میں پہنچے ہیں مر کے ہم
کیوں کر ہوا ہے طے یہ سفر کچھ نہ پوچھئے
اختر شیرانی
 

سیما علی

لائبریرین
ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
بے کار جائیں اپنی دعائیں تو کیا کریں

اک زہرہ وش ہے آنکھ کے پردوں میں جلوہ گر
نظروں میں آسماں نہ سمائیں تو کیا کریں

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

ہم لاکھ قسمیں کھائیں نہ ملنے کی سب غلط
وہ دور ہی سے دل کو لبھائیں تو کیا کریں

بد قسمتوں کا یاد نہ کرنے پہ ہے یہ حال
اللہ اگر وہ یاد ہی آئیں تو کیا کریں

ناصح ہماری توبہ میں کچھ شک نہیں مگر
شانہ ہلائیں آ کے گھٹائیں تو کیا کریں

مے خانہ دور راستہ تاریک ہم مریض
منہ پھیر دیں ادھر جو ہوائیں تو کیا کریں

راتوں کے دل میں یاد بسائیں کسی کی ہم
اخترؔ حرم میں وہ نہ بلائیں تو کیا کریں
اختر شیرانی
 

شمشاد

لائبریرین
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
عرفان ستار
 

La Alma

لائبریرین
اسی کو بات نہ پہنچے جسے پہنچنی ہو
یہ التزام بھی عرض ِ ہنر میں رکھا جائے
افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
یہ بھی اِنکار کی تجلی ہے
ذہن لات و منات سے گزرا

دستِ اقبال تھام کر منصور
کعبہ و سومنات سے گزرا
منصور آفاق
 

فہد اشرف

محفلین
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
سعید واثق
یہ تو پیر زادہ قاسم کے اشعار ہیں۔ یہ سعید واثق کون ہیں؟
 

فہد اشرف

محفلین
خالہ یہ شعر اقبال کا نہیں ۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

بلکہ شعر کے شاعر ہیں" بھرتری ہری" اقبال نے اس شعر کو بال جبریل کی ابتدا میں رقم کر کے مقبول کر دیا ہے۔
بھرتری ہری کی زبان سنسکرت تھی جب کہ اقبال نے یہ شعر اردو میں لکھا ہے پھر شعر کس کا مانا جائے گا؟خیال تو بہر حال بھرتری ہری کا ہی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top