نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی، احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو جاری

فرقان احمد

محفلین
سپریم کورٹ نے مریم نواز کو ’’عورت‘‘ ہونے کی بنیاد پر ڈھیل دی تھی اور دوبارہ قید و بند کی تکالیف سے بچایا تھا۔ اس نرمی کا صلہ انہوں نے انہی ججوں کے خلاف خفیہ ویڈیو والا معرکہ مار کر ادا کیا :)
یعنی کہ ایک خاتون نے اسٹیبلشیہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی کہ ایک خاتون نے اسٹیبلشیہ کو تگنی کا ناچ نچا دیا۔ :)
بالکل۔ اس سارے معاملہ میں عدلیہ اور اسٹیبلشیہ کے لئے سبق پوشیدہ ہے۔ کسی مشہور جمہوریے نے شریف خاندان سے متعلق کہا تھا کہ ان کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ان کو کوئی ڈھیل یا ڈیل دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اور جو تھوڑی سی ڈھیل اسٹیبلشیہ اور عدلیہ نے دی تھی، وہی ان کو چمٹ گئی ہے :)
عمران خان کا موقف پھر سُرخرو ہوا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ والا عدالتی فیصلہ تو کسی اور جج نے دیا تھا۔ اس کو بھی متنازعہ بنائیں تو بات بنے۔
D-97ZRiUEAA_hkM.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
ویڈیو کی بات کی تو تمام چینل میوٹ ہو گئے
مریم نواز کی ایک پریس کانفرنس سے ملکی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ پانچ سالوں سے سہج سہج کر بنایا کرپشن کا بیانیہ ایک ہی ہلے میں زمین بوس ہو گیا ہے۔


پریس کانفرنس میں دکھائی جانے والی ویڈیو میں، جہاں نواز شریف کو سزا دینے والے جج صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کس طرح سے عدالتی نظام کو شکنجے میں لیا گیا ہے وہاں کچھ اور باتیں بھی واضح ہوئیں۔

پارٹی کی تمام تر سینیئر قیادت کے ہوتے ہوئے مریم نواز کا اس پریس کانفرنس سے خطاب کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کی اصل وارث مریم نواز ہیں۔ مفاہمت کے بیانیے کا دور بیت گیا ہے۔

اس پریس کانفرنس کی ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ پریس کانفرنس تمام چینلوں پر براہ راست دکھائی گئی جو کہ اس ''کنٹرولڈ میڈیا‘‘ کے ماحول میں اچھنبے کی بات تھی۔ حالانکہ مریم نواز نے اس خدشے کا اظہار ایک ٹوئیٹ میں پریس کانفرنس سے پہلے کیا تھا۔

مریم نواز نے پریس کانفرنس میں ستر سال کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے سول سپریمیسی کے بیانیے پر پوری شدت سے قائم نظر آئیں۔ مریم نواز نے واضح کیا کہ وہ کسی ادارے کے خلاف نہیں۔ اس بات سے وہ تاثر بھی دم توڑ گیا کہ یہ مہم دفاعی اداروں کے خلاف ہے۔ ان کا صرف ایک نکاتی مطالبہ تھا کہ اگر نواز شریف کو کرپشن کے بے بنیاد الزام میں سزا سنائی ہے تو اس ویڈیو میں جج صاحب کے انکشاف کے بعد اب اس سزا کو ختم ہونا چاہیے۔ ظلم کی اس روایت کو بدلنا چاہیے۔

اب بات ہو جائے اس مبینہ ویڈیو کی جس میں نواز شریف کو سزا دینے والے جج صاحب اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کس طرح ان کی ذاتی زندگی کے ایک پوشیدہ گوشے کی ویڈیو دکھا کر ان کو بلیک میل کیا گیا اور کس طرح انہوں نے نواز شریف کے خلاف وہ غلط فیصلہ تحریر کیا۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ نواز شریف پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی ہے۔ یہ سب ڈھکوسلہ ان کو سزا دینے کی خاطر تھا۔ حکومتی وزراء اور چند منتخب اینکرز کی طرف سے اس ویڈیو کو فراڈ قرار دیا گیا اور اس کے فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ اگلے ہی دن جج صاحب کی طرف سے ایک تردیدی پریس ریلیز بھی جاری کی گئی مگر اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے رہے کہ کیا یہ پریس ریلیز کسی دباؤ کا نتیجہ ہے؟ اس تردید میں بھی انہوں نے ناصر بٹ سے ملاقاتوں کا اعتراف کیا ہے اور اتنی تردید کی ہے کہ ان کی باتوں کو موڑ توڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ مبینہ ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ پھر بھی ضرور ہونا چاہیے اور اگر اس میں ویڈیو کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے تو یہ اس نظام عدل کے منہ پر ایک طمانچہ ہوگا۔ اس ایک ویڈیو سے ستر سال کا وہ سچ عیاں ہو گا جو ہمیشہ حیلے بہانوں سے چھپایا گیا۔ اس ایک ویڈیو سے لوگوں کی ذاتی زندگی کی ریکارڈنگ کر کے ان کو بلیک میل کرنےکی روایت ختم ہو گی۔ اس ایک ویڈیو سے تاریخ بدل سکتی ہے۔ یقین جانیے اب بھی ادارے بات سمجھ جائیں تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

منڈی بہاو الدین جلسہ مسلم لیگ ن کی اور مریم نواز کی بہت بڑی کامیابی تھا۔ وہ سارے ورکرز جو پارٹی کو نواز شریف کی علالت کے حوالے سے خاموش رہنے پر طعنے دے رہے تھے ان کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ پنجاب اور جی ٹی روڈ نے ایک بار پھر اپنے دل ن لیگ کے لیے کھول کر دکھا دیے۔ ڈھائی گھنٹے کا سفر قریبا آٹھ گھنٹے میں طے ہوا۔ اس جلسے کے موقع پر حکومت کے روایتی ہتھکنڈے سامنے آئے۔ کبھی گراؤنڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملی اور کبھی اس گراؤنڈ میں پانی بھر دیا گیا۔ چینلوں نے پنجاب میں ہونے والی اس مزاحمتی جلسے کی کوریج سے زیادہ اہمیت لکس اسٹائل ایوارڈ اور مراد سعید کے اس بیان کو دی کہ مریم نواز نے ٹول ٹیکس نہیں دیا۔ جلسے میں مریم نواز کی تقریر دکھاتے ہوئے جہاں مریم نواز نے جج کی ویڈیو کی بات کی تمام کے تمام چینل میوٹ ہو گئے۔ اسی دوران پاکستان کے تین معروف صحافیوں عمر چیمہ، اعزاز سید اور وجیہ ثانی کے ٹویٹر اکاؤنٹس اس جلسے کے دوران ڈی اکٹیوِیٹ ہو گئے یا کروا دیے گئے۔ یاد رہے تین صحافی اس ویڈیو کے حوالےسب سے زیادہ بات کر رہے تھے۔

جلسے کا اثر کم دکھانے کے لیے صدیوں پرانے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ حاظرین کی درست تعداد کی ویڈیو نہیں بنائی گئی اور اگر بنائی گئی تو اس طرح کہ لوگوں کی تعداد بہت کم لگے۔ آڈیو کوالٹی میں خلل ڈالا گیا۔ جلسہ گاہ میں اسٹیج نہیں بننے دیا گیا۔ جلسے کے بعد من پسند تجزیہ کاروں سے من پسند تجزیات لیے گئے۔ یہ پرانے دور کے ہتھکنڈے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ ہر ویڈیو لوگوں کی ہتھیلی تک پہنچ جاتی ہے۔ ان بوسیدہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے والے لوگ اب بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ نئے دور کے نئے میڈیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

مریم نواز نے جلسے میں ''گو سیلکیٹڈ گو‘‘ کے نعرے بھی لگوائے۔ یہ جانتےبوجھتے ہوئے کہ یہ طنز عمران خان پر نہیں بلکہ ان کے''سیلیکٹرز‘‘ پر ہے۔

کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے۔ ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے آئندہ دنوں میں اس ملک کی سیاست میں وہ تہلکہ مچے گا، جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ بس دعا کیجئے کہ مریم نواز اس سچ کو بولنے بعد کسی حادثے سے دوچار نہ ہوں، اس لیے کہ ایسے پراسرار حادثوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’ابھی دو اور ویڈیوز بھی موجود ہیں‘:مریم نواز
_107798221_gettyimages-956871014.jpg


پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کے پاس احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو ٹیپ کی گذشتہ روز اجرا کی گئی ویڈیو جیسی مزید دو ویڈیوز اور آڈیو ریکارڈنگ موجود ہیں۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رمضان کے مہینے میں جج ارشد ملک عمرے کے لیے گئے تھے اور سعودی عرب میں ان کی کسی شخص سے ملاقات ہوئی جس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

یاد رہے کہ یہ ویڈیو ٹیپ سنیچر کو پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں جس میں مبینہ طور پر نواز شریف کو العزیزیہ ریفرینس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ایک لیگی کارکن ناصر بٹ کے ساتھ بات چیت میں فیصلہ لکھنے سے متعلق کچھ 'نامعلوم افراد' کی جانب سے دباؤ کے بارے میں بتاتے دیکھا اور سنا جا سکتا تھا۔

یہ ٹیپ سامنے آنے کے بعد اتوار کو احتساب عدالت کی جانب سے مذکورہ جج کا ایک بیان جاری کیا گیا جس میں انھوں نے ویڈیو کو 'جھوٹی، جعلی اور مفروضوں پر مبنی' قرار دیا تھا۔

مریم نواز کے تازہ ترین بیان سے قبل وزیراعظم عمران خان نے پیر صبح اسلام آباد میں حکومتی ترجمانوں کے ایک اجلاس میں ہدایت کی تھی کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو اس حوالے سے تنازع کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ مقامی میڈیا کے مطابق عمران خان کا کہنا تھا کہ ’عدلیہ آزاد ہیں اور انھیں اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔‘

ویڈیو کے حوالے سے مذکورہ جج کی تردید کے بعد وزیراعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'آڈیو، ویڈیو ٹیپ بنانے اور چلانے والے دونوں کردار سند یافتہ جھوٹے ہیں اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مریم صفدر اعوان کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آڈیو اور ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے۔'

تاہم مریم نواز کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اس ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروا لیا ہے جس میں ویڈئو سچی ثابت ہوئی اور اسی لیے تحریکِ انصاف کی حکومت نے پہلے ویڈیو کو جھوٹا قرار دینے کے بعد اب اس معاملے سے دور رہنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔

اس سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر شہزاد اکبر نے مشیرِ اطلاعات کی جانب سے ویڈیو کے فرانزک آڈٹ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے حکومتی فیصلہ مشاورت کے بعد آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق اس معاملے پر اب تک کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ منگل کو کابینہ کے اجلاس میں یا ممکنہ طور پر اس سے قبل اس حوالے سے بات ہو۔

شہزاد اکبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات خود عدلیہ کو کرنی چاہییں کیونکہ ایک عدالتی افسر کو انتظامی افسر کے سامنے پیش کروا کر تفتیش کروانا مناسب نہیں۔

’اس معاملے میں وزارتِ قانون متعلقہ وزارت ہے اور اس کا مشورہ نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اگر حکومت نے معاملے کی تحقیقات عدالت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ بھی وزارتِ قانون کے ذریعے ہی ہو گا۔'

شہزاد اکبر کے مطابق چونکہ اسلام آباد کی احتساب عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت ہے، اس لیے وہ عدالت ہی اس حوالے سے تحقیقات کا متعلقہ فورم ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے تحقیقات کروانے پر جانبداری کا الزام لگ سکتا ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس ویڈیو کو جعلی اور مفروضوں پر مبنی جج ارشد ملک کی پریس ریلیز آنے کے بعد کہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ویڈیو جاری کرتے وقت کہا گیا کہ آواز کہیں سے اور ویڈیو کہیں سے ریکارڈ کی گئی ہے، اور جج کا اس معاملے سے انکار کرنے کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیسے اس ویڈیو کو صحیح مانا جا سکتا ہے۔

جج ارشد ملک کا بیان
اتوار کی دوپہر رجسٹرار احتساب عدالت کی جانب سے ایک پریس ریلیز کا اجرا کیا گیا جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سنیچر کے روز پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیوز کو جھوٹی، جعلی اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا۔

انھوں نے اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کو ’حقائق کے برعکس‘ اور ان کی اور ان کے خاندان کی ’ساکھ متاثر کرنے کی سازش‘ قرار دیا۔

’میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی لالچ پیش نظر تھا۔ میں نے یہ فیصلے خدا کو حاضر و ناظر جان کر قانون و شواہد کی بنیاد پر کیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ پریس کانفرنس محض میرے فیصلوں کو متنازع بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ ’اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر انھوں نے دباؤ یا رشوت کے لالچ میں فیصلہ سنانا ہوتا تو ایک مقدمے میں سزا اور دوسرے میں بری نہ کرتے۔ ’میں نے انصاف کرتے ہوئے شواہد کی بنیاد پر نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سزا سنائی اور فلیگ شپ کیس میں بری کر دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ مریم صفدر کی پریس کانفرنس کے بعد یہ ضروری ہے کہ سچ منظرعام پر لایا جائے۔

’نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کے نمائندوں کی طرف سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کو میں نے سختی سے رد کرتے ہوئے حق پر قائم رہنے کا عزم کیا اور اپنے جان و مال کو اللہ کے سپرد کر دیا۔‘

پریس ریلیز کے مطابق جج ارشد ملک نے کہا کہ مذکورہ ویڈیوز میں دکھائے کردار ناصر بٹ کا تعلق انھی کے شہر (راولپنڈی) سے ہے اور ان سے ان کی پرانی شناسائی ہے۔ ’ناصر بٹ اور اس کا بھائی عبداللہ بٹ عرصہ دراز سے مختلف اوقات میں مجھ سے بے شمار دفعہ مل چکے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یہ جواب اس لیے دے رہے ہیں کیونکہ اس پریس کانفرنس کے ذریعے مجھ پر سنگین الزامات لگا کر میرے ادارے، میری ذات اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی ہے، لہذا وہ اس ضمن میں حقائق منظر عام پر لانا چاہتے ہیں۔

جج ارشد ملک کی پریس ریلیز کے جواب میں مریم نواز نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’جبر و بلیک میلنگ کا شکار ہو کر اپنے ضمیر کے خلاف فیصلہ دینے والے جج صاحب! میں سمجھ سکتی ہوں کہ آج بھی فیصلے کی طرح تیار شدہ پریس ریلیز پر آپ نے مجبوری میں دستخط کیے ہوں گے، تھینک یو ویری مچ، آپ نے ویڈیو کا انکار نہ کر کے تصدیق کر دی۔‘

مریم نواز نے کیا الزامات عائد کیے تھے؟
واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے سنیچر کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ پاناما مقدمے میں نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج ارشد ملک پر 'نامعلوم افراد' کی طرف سے دباؤ تھا۔

پریس کانفرنس میں مریم نواز کا کہنا ہے کہ 'جس جج کے فیصلے کے مطابق نوازشریف 7 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں وہ خود ہی اپنے جھوٹے فیصلے کی خامیوں پر سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ جج نے ناصر بٹ کو بتایا کہ 'کچھ لوگوں نے مجھے کسی جگہ پر بلایا۔ میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے سکرین پر ایک ویڈیو چلا دی۔ وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور تین چار منٹ بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم چکی تھی، انھوں نے مجھ سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے۔

مریم نواز کے مطابق گفتگو کے دوران جج ناصر بٹ کو بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ خود کشی کے علاوہ کوئی رستہ بھی نہیں چھوڑتے اور ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ بندہ اس جگہ پر ہی چلا جاتا ہے جہاں پر وہ لے کر جانا چاہتے ہیں۔'
 

فرقان احمد

محفلین
معاملہ سپریم کورٹ کے ججز کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس سے پورا احتسابی نظام دھڑام بوس ہونے کا خدشہ ہے۔ جب سپریم کورٹ آؤٹ آف دی وے جا کر نگران ججز کا تقرر کر رہی تھی، تب یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے تھی کہ آیا اس طرح لوئر کورٹ میں ہونے والے ٹرائل پر اثر انداز ہونا مناسب ہے بھی یا نہیں۔ فی الحال نگران جج کا نام سامنے نہیں آ رہا ہے، تاہم، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے نگران جج نے ارشد ملک پر دباؤ ڈالا ہو گا کہ میاں صاحب کو اس نوعیت کی سزا دی جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سیاسی مافیا اسٹیبلیشیہ مافیا کو دھمکا رہا ہے کہ ہمارے پاس آپ کی دو اور ویڈیوز ہیں۔ ہمیں این آر او دے دو نہیں تو ہم انہیں پبلک کر دیں گے۔ پاکستانی سیاست 101 :)
اب یہ سب مافیاز مل کر عمران خان پر دباؤ ڈالیں گے کہ سیاسی مافیا کو اسٹیبلیشیہ مافیا کی بقا کی خاطر لندن جانے دیا جائے :)
 

جاسم محمد

محفلین
فی الحال نگران جج کا نام سامنے نہیں آ رہا ہے، تاہم، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے نگران جج نے ارشد ملک پر دباؤ ڈالا ہو گا کہ میاں صاحب کو اس نوعیت کی سزا دی جائے۔
میاں صاحب پر سپریم کورٹ نے پاناما لیکس تحقیقات کے بعد 3 ریفرنسز بنائے تھے:
  • ایون فیلڈ
  • ہل میٹل العزیزیہ
  • فلیگ شپ
پہلے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب عدالت کے جج محمد بشیر نے میاں صاحب کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن صفدر کو 1 سال کی سزا سنائی تھی۔ جرمانے اس کے علاوہ تھے۔
دوسراہل میٹل العزیزیہ اور تیسرا فلیگ شپ ریفرنس ایک ساتھ سنا گیا تھا۔ یہ دونوں ریفرنسزمیاں صاحب کے وکلا نے پٹیشن ڈال کر سماعت سے قبل ہی جج محمد بشیر کی عدالت سے نکال کر اپنے خریدے ہوئے جج ارشد ملک کی عدالت میں ٹرانسفر کر وا دئے تھے۔
یوں جج ارشد ملک نے نمک حلال کرتے ہوئے فلیگ شپ کیس میں میاں صاحب کو باعزت بری کر دیا۔ اور ہل میٹل العزیزیہ کیس میں "دباؤ" کے تحت سزا سنا دی۔ اس سزا کے خلاف میاں صاحب کے وکلا ہائی کورٹ گئے لیکن ریلیف نہیں ملا۔ پھر سپریم کورٹ نے علاج کیلئے کچھ ریلیف دے دیا مگر میاں صاحب یہاں بھی عدالت کو دھوکہ دیتے رہے۔ یوں واپس جیل جانے کے بعد ایک بار پھر سزا معطلی کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ لیکن کورٹ نے ضمانت پر رہائی نہیں دی۔
جس کے بعد مریم نواز نے اپنے خریدے ہوئے جج کو ننگا کیا ہے تاکہ پوری عدلیہ کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کئے جا سکیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھیج دے پھر انتظار کاہے کا ہے؟ اصل کھیل تو یہی ہے۔ :)
الحمدللہ۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز احتساب عدالت طلب
ویب ڈیسک 26 منٹ پہلے
1736365-maryamnawazxx-1562666221-493-640x480.jpg

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کو نوٹس جاری کیا فوٹو:فائل

اسلام آباد: احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز کو طلب کرلیا ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 19 جولائی کو طلب کرلیا۔ نیب نے مریم نواز کے خلاف جعلی دستاویزات پر ٹرائل کے لیے درخواست دی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوئی۔

واضح رہے کہ 5 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 برس قید بامشقت، مریم نواز کو 7 برس قید جب کہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ناچ گانا ختم :)
D_BsDDJXUAEi75h.jpg

اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی بات اب کہیں جا کر سمجھ آئی ہے۔ ان قومی چوروں کو این آر او نہیں دیا جا سکتا۔
دراصل، جو سوال قوم کے سامنے آ گئے ہیں، اُن کے جواب بھی کسی نہ کسی صورت سامنے آئیں گے چاہے پوری سیاسی قیادت جیل میں ڈال دی جائے۔ احتساب کا نظام ہچکولے کھانے لگ گیا ہے۔ اس پر اعتبار بحال کرنے کے لیے کسی نہ کسی فورم پر جواب دہی لازم ہے۔ پارلیمان ایک فورم ہے جہاں احتساب عدالت کے جج کو طلب کیا جانا چاہیے۔ دراصل، سپریم جوڈیشل کونسل بھی متنازع بنتی جا رہی ہے یا امکانی طور پر، بن جائے گی۔ اگر وطن عزیز میں ان معاملات کو دبائے جانے کی صورتیں پیدا کی جائیں گی تو یہ سوال عالمی فورمز پر اٹھ جائیں گے جو نامناسب بات ہے۔ احتساب کا پورا نظام طویل مدت کے بعد دھڑام بوس ہونے کے آثار نمودار ہو رہے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات نہ ہے۔ اسی لیے، ہم بلاامتیاز احتساب کا شور مچاتے رہے ہیں۔ :) اب آپ جو کچھ عجلت میں کر رہے ہیں، وہ انتقام کی ذیل میں تصور کیا جا سکتا ہے۔ مریم نواز کا اعتماد ہمیں کوئی اور خبر دے رہا ہے جب کہ جن کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں، اُن کی بے چینی دیکھا چاہیے ہے۔ لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ پک رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
احتساب کا نظام ہچکولے کھانے لگ گیا ہے۔
جو احتساب کا نظام شریف خاندان کو سزائیں سنا رہا ہے وہی ساتھ ساتھ ریلیف بھی فراہم کر رہا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز میں سے دو پر سزا ہوئی اور ایک میں باعزت بری ہوئے۔ پہلے ریفرنس میں ہونے والی سزا دو ماہ بعد معطل ہو گئی تھی۔ جبکہ دوسرے ریفرنس میں ہونے والی سزا تا حال قائم ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ احتساب عدالت کئی سو پیشیاں بھگتا کر ملزمان کو مجرم ثابت کرتی ہے اور دو ماہ بعد وہ کیس ہائی کورٹ میں اُڑ جاتا ہے؟ اگر اسٹیبلشمنٹ پر ججوں کو دباؤ میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے لینے کا الزام ہے تو شریف خاندان پر بھی ججوں کو بلیک میل یا خرید کر اپنے لئے عدالتی ریلیف حاصل کرنے کے شواہد موجود ہیں۔ جو کالی بھیڑیں احتساب کے نظام کو اوچھے ہتھکنڈوں سے میلا کر رہی ہیں۔ ان کو پکڑیں۔ پورا نظام متنازعہ نہ بنائیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جو احتساب کا نظام شریف خاندان کو سزائیں سنا رہا ہے وہی ساتھ ساتھ ریلیف بھی فراہم کر رہا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف تین ریفرنسز میں سے دو پر سزا ہوئی اور ایک میں باعزت بری ہوئے۔ پہلے ریفرنس میں ہونے والی سزا دو ماہ بعد معطل ہو گئی تھی۔ جبکہ دوسرے ریفرنس میں ہونے والی سزا تا حال قائم ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ احتساب عدالت کئی سو پیشیاں بھگتا کر ملزمان کو مجرم ثابت کرتی ہے اور دو ماہ بعد وہ کیس ہائی کورٹ میں اُڑ جاتا ہے؟ اگر اسٹیبلشمنٹ پر ججوں کو دباؤ میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے لینے کا الزام ہے تو شریف خاندان پر بھی ججوں کو بلیک میل یا خرید کر اپنے لئے عدالتی ریلیف حاصل کرنے کے شواہد موجود ہیں۔ جو کالی بھیڑیں احتساب کے نظام کو اوچھے ہتھکنڈوں سے میلا کر رہی ہیں۔ ان کو پکڑیں۔ پورا نظام متنازعہ نہ بنائیں۔
ارے بھئی، نظام آپ کے سامنے ہے۔ جس کو چاہا، طلب کر لیا۔ جو رام ہو گیا، اس پر سے کیس بھی ختم اور اس کی طلبی بھی ختم۔ بلا امتیاز احتساب ہوتا تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ حیرت ہے کہ آپ کس دنیا میں زندہ ہیں! آنکھیں کھولیے اور دیکھیے کہ ججز کن بھیانک سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم فوج اور عدلیہ کے احتساب کے لیے بھی آواز بلند کرے اور انہیں ادارہ جاتی احتساب کے دائرے سے باہر لائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وقت آ گیا ہے کہ پوری قوم فوج اور عدلیہ کے احتساب کے لیے بھی آواز بلند کرے اور انہیں ادارہ جاتی احتساب کے دائرے سے باہر لائے۔
فوج اور عدلیہ کا احتساب ان کے متعلقہ فارمز میں ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کا احتساب بھی پارلیمانی کمیٹیوں میں ہونا چاہئے مگر وہاں بلیاں دودھ کی رکھوالی ہیں اس لئے ادارہ جاتی احتساب کوزحمت دینی پڑتی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس 18 ویں ترمیم کے وقت تاریخی موقع تھا کہ وہ نیب کورٹس کو اپنے پر حرام کر دیتے مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
فوج اور عدلیہ کا احتساب ان کے متعلقہ فارمز میں ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کا احتساب بھی پارلیمانی کمیٹیوں میں ہونا چاہئے مگر وہاں بلیاں دودھ کی رکھوالی ہیں اس لئے ادارہ جاتی احتساب کوزحمت دینی پڑتی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پاس 18 ویں ترمیم کے ساتھ تاریخی موقع تھا کہ وہ نیب کورٹس کو اپنے پر بند کر دیتے مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
دیر وغیرہ کی بات نہیں ہے۔ نظام پر اعتماد کی بات ہے۔ اگر اپوزیشن کی تمام جماعتیں احتساب کے نام پر ہونے والے ڈرامے کا بائیکاٹ کر دیں اور کسی مرحلے پر سپریم کورٹ بھی متنازعہ ہو جائے، جس کا امکان موجود ہے، تو مسائل بن سکتے ہیں جن پر ابھی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہم بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ حمود الرحمنٰ کمیشن کی طرز پر کارگل کمیشن بھی بنے۔ اسی طرح عدلیہ نے بھٹو مرحوم کو جس طرح پھانسی دلوائی، اس کا احتساب بھی ہونا چاہیے۔ یہ سوال آج نہیں تو کل، ضرور اٹھیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی قیادتیں جیل میں جائیں اور مجبور ہو کر یہ مطالبہ کریں۔ انہیں این آر او موڈ سے باہر نکل کر سیاست کرنے کی ضرورت ہے۔ جیلوں میں جائیں، مگر ملک کا بھی بھلا کر جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نظام پر اعتماد کی بات ہے۔
نظام پر اعتماد دلوانا کس کا کام ہے؟ جب سیاست دان خود ہی اس عدالتی نظام سے ریلیف ملنے پر کہیں کہ "اللہ نے سُرخرو کیا" اور سزا ملنے پر کہیں کہ "اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے، ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں، پانچ لوگوں نے کروڑوں ووٹوں کی توہین کی " تو ایسے میں نظام پر اعتماد کیسے آئے گا؟
جب الیکشن جیتیں تو کہیں "عوام کی عدالت میں سُرخرو ہوئے" اور جب ہاریں تو کہیں کہ "خلائی مخلوق نے دھاندلی کر کے سلیکٹڈ وزیر اعظم لگایا"۔ پہلے سیاست دانوں کو خود ہی اس نظام سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تب ہی نظام پر اعتماد بحال ہوگا۔
 

فرقان احمد

محفلین
نظام پر اعتماد دلوانا کس کا کام ہے؟ جب سیاست دان خود ہی اس عدالتی نظام سے ریلیف ملنے پر کہیں کہ "اللہ نے سُرخرو کیا" اور سزا ملنے پر کہیں کہ "اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے، ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں، پانچ لوگوں نے کروڑوں ووٹوں کی توہین کی " تو ایسے میں نظام پر اعتماد کیسے آئے گا؟
جب الیکشن جیتیں تو کہیں "عوام کی عدالت میں سُرخرو ہوئے" اور جب ہاریں تو کہیں کہ "خلائی مخلوق نے دھاندلی کر کے سلیکٹڈ وزیر اعظم لگایا"۔ پہلے سیاست دانوں کو خود ہی اس نظام سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تب ہی نظام پر اعتماد بحال ہوگا۔
ہماری دانست میں، عوام کی رائے اس سے مختلف چل رہی ہے جو کہ آپ کا موقف ہے۔ ریاستی ادارے متنازعہ ہو رہے ہیں اور اس کا باعث بھی ان اداروں میں موجود افراد بن رہے ہیں اور یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ آپ مانیے یا نہ مانیے؛ اس سے شاید کوئی زیادہ فرق نہ پڑے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہماری دانست میں، عوام کی رائے اس سے مختلف چل رہی ہے جو کہ آپ کا موقف ہے۔
جی عین ممکن ہے کیونکہ عوام کی سیاسی یاداشت بہت افسوس کے ساتھ چند دن سے زیادہ نہیں ہے۔
اسی سال جنوری کی بات ہے جب مریم نواز کو ملک کی سب سی بڑی عدالت نے ریلیف فراہم کیا تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے والد صاحب کی رہائی کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا:

اب چونکہ والد صاحب کو ملک کی عدالتیں کوئی ریلیف فراہم نہیں کر رہی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو رعایت ان کو عورت ہونے کی وجہ سے دی گئی تھی وہ والد صاحب کو بھی ملے۔
اپنی ان خواہشات کی تکمیل نہ ہونے پر پورے نظام پہ حملہ کرنا ان کے موقف کو طاقت ور نہیں کمزور بناتا ہے۔
 
Top