ورلڈ ٹی 20 ۔ دیگر میچز

arifkarim

معطل
مسماۃ سے محبت کی پینگیں آسٹریلیا میں نہیں چڑھتیں؟؟؟
مغرب میں مسماۃ سے محبت عشق وغیرہ کوئی متنازع ایشو نہیں رہا ہے۔ یہاں پرائمری جماعت میں ہی یہ چکر شروع ہو جاتا ہے جو ہائی اسکول سے لیکر گریجویشن تک جاری رہتا ہے۔ یوں مسماۃ سے محبت کی پینگیں کھلاڑیوں کی پرفرمانس و توجہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتی۔
 
مغرب میں مسماۃ سے محبت عشق وغیرہ کوئی متنازع ایشو نہیں رہا ہے۔ یہاں پرائمری جماعت میں ہی یہ چکر شروع ہو جاتا ہے جو ہائی اسکول سے لیکر گریجویشن تک جاری رہتا ہے۔ یوں مسماۃ سے محبت کی پینگیں کھلاڑیوں کی پرفرمانس و توجہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتی۔

اچها تو آپ کون سی جماعت کے طالبعلم تهے جب مغرب پہنچے ؟
 

arifkarim

معطل
اچها تو آپ کون سی جماعت کے طالبعلم تهے جب مغرب پہنچے ؟
۷ ویں۔ یہاں ہائی اسکول کے پہلے سال یوتھ کلبز کھل جاتے ہیں جہاں شام کو سب بچے مختلف غیر نصابی ایکٹیویٹی کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں کلب کی گیمز کے علاوہ ورزشی کھیل بھی ہوتے ہیں۔
دسویں جماعت تک کسی بڑے کی نگرانی ضروری ہوتی ہے اور اسکے بعد کھلی چھٹی۔ جب بچپن ہی سے بچوں کو ایسا مکس ماحول دیا جائے تو وہ اپنی نوجوانی مسمات کے پیچھے برباد نہیں کرتے۔ دن کو اسکول میں اور شام میں گراؤنڈ یا کلب میں مسمات ہی مسمات ہونے کی وجہ سے نوجوان انکا عادی ہو جاتا ہے اور عشق محبت جیسی فطری شے متنازع نہیں رہتی۔
سائکولوجسٹس بھی یہی کہتے ہیں کہ بچوں یا نوجوانوں سے جو چیز چھپائی جائے گی وہ اسکی زیادہ طلب کریں گے۔ کیونکہ تجسس بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ مغرب نے اسکا حل یہ نکالا کہ بچوں میں تجسس پیدا ہونے سے قبل اسکا سدباب کر دیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
آپ تو تاخیر سے گئے آپ کو بهلا کہاں پتہ ہونا
امریکہ و یورپ میں اب صورت حال پھر بہتر ہے۔ ۶۰ اور ۷۰ کی دہائی میں تو بیڑے ہی غرق ہو گئے تھے۔ وہ دہائی ایسی تھی جب تمام قیود کچھ عرصہ کیلئے معطل ہو گئی تھیں۔ اس دور کو ہیپیز کا دور بھی کہا جاتا ہے۔
 
۷ ویں۔ یہاں ہائی اسکول کے پہلے سال یوتھ کلبز کھل جاتے ہیں جہاں شام کو سب بچے مختلف غیر نصابی ایکٹیویٹی کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں کلب کی گیمز کے علاوہ ورزشی کھیل بھی ہوتے ہیں۔
دسویں جماعت تک کسی بڑے کی نگرانی ضروری ہوتی ہے اور اسکے بعد کھلی چھٹی۔ جب بچپن ہی سے بچوں کو ایسا مکس ماحول دیا جائے تو وہ اپنی نوجوانی مسمات کے پیچھے برباد نہیں کرتے۔ دن کو اسکول میں اور شام میں گراؤنڈ یا کلب میں مسمات ہی مسمات ہونے کی وجہ سے نوجوان انکا عادی ہو جاتا ہے اور عشق محبت جیسی فطری شے متنازع نہیں رہتی۔
سائکولوجسٹس بھی یہی کہتے ہیں کہ بچوں یا نوجوانوں سے جو چیز چھپائی جائے گی وہ اسکی زیادہ طلب کریں گے۔ کیونکہ تجسس بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ مغرب نے اسکا حل یہ نکالا کہ بچوں میں تجسس پیدا ہونے سے قبل اسکا سدباب کر دیا جائے۔

بڑا افسوس ہوا یہ جان کر کہ آپ کم از کم 2 سال پینگوں کو جهولانے سےمحروم رہے:confused1:
;)
 

یاز

محفلین
l_70632_093956_updates.jpg

70632_details.png
 

محمد وارث

لائبریرین
کاش کوئی ان کوچ صاحب کو سمجھائے کہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے سے بہتر ہے کھلاڑیوں کو آنکھیں کھول کر کھیلنے کا مشورہ دیں۔
 
خود کوچ صاحب اپنی کارکردگی پر بھی نظر ڈالیں۔ اور بتائیں کہ
بحیثیت کوچ مختلف کپتانوں کے ساتھ تین ورلڈ کپ ہارنے کے علاوہ کیا کارنامے دکھائے ہیں؟
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
میرا ذاتی خیال (جو کہ یقیناِِ خیالِ خام ہو گا) یہ ہے کہ ہم سب کو ہاتھ جوڑ کر وقار یونس سے معافی مانگنی چاہئے۔ یعنی کہ "معاف کر دو بابا" جیسی معافی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرا ذاتی خیال (جو کہ یقیناِِ خیالِ خام ہو گا) یہ ہے کہ ہم سب کو ہاتھ جوڑ کر وقار یونس سے معافی مانگنی چاہئے۔ یعنی کہ "معاف کر دو بابا" جیسی معافی۔
بالکل صحیح کہا۔ ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھا کھلاڑی ایک اچھا کوچ بھی ہو۔ یہ بھی ایک فن ہے جو سب کے پاس نہیں ہوتا۔ وقار یونس کو اس بات کو قبول کر کے خود ہی فارغ ہو جانا چاہیے تھا۔
 
برطانیہ کل دہلی میں دو دفعہ قسمت آزمائے گا۔
پلے گوریاں،کینگروز کڑیوں سے بھڑیں گی
جبکہ شام کو گورے کیویز سے لڑیں گے۔
مطلب گورے کل سارا دن ٹی وی کے سامنے ہی بیٹھے رہینگے۔
 
Top