یہ اشک شوئی کی کوشش کے سوا کچھ اور نہیں۔
پہلی بات یہ کہ پاکستان کا عام آدمی اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے روایتی دعویداروں کے اشارہ ابرو سے بے نیاز ہوکر خود بھی اپنے گھر سے نکلنے کا فیصلہ کرسکتا ہے اور اپنی قیادت خود کرسکتا ہے۔
عوام کی موبلائزیشزین روایتی سیاسی جماعتوں نواز لیگ، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف، و دوسری چھوٹی جماعتوںکے کارکنوں اور ان کے حامی وکلا نے کیں تھیں۔ عوام کبھی سیاسی قیادت کے بنا میدان میں نہیںاتیں۔ وسعت کا یہ بیان ادھورا سچ ہے۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ یہ آدمی تمام تر مایوسی، لاچاری اور روزمرہ مسائل میں گھرے رہنے کے باوجود پرامن طور پر ایک اجتماعی سفر کا حصہ بن سکتا ہے اور حکومتیں اگر اس پر اعتماد کریں تو وہ اب بھی حکومتوں کو کچے پکے ، آدھے پونے وعدے وفا کرنے کی مہلت دے سکتا ہے۔
یہ تو اپنے دل بہلاوے کے لیے ہے۔ جب اخیتار ہاتھ میںہو تو کوئی کسی کو مہلت نہیںدیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل اختیار ان لوگوںکے ہاتھ میںنہیںجو بقول وسعت کے "مہلت دینے کو تیار ہیں"
یہ تو ناکامی کے احساس کو کم کرنے کی بات ہے۔
تیسری بات یہ کہ عام آدمی نے ساٹھ برس میں آج تک روٹی، کپڑے یا مکان کے لیے پانچ دن کا لانگ مارچ نہیں کیا۔بلکہ مارے غیرت کے اپنا تماشا بنانے کے بجائے گھر کے اندر بھوکے رہنے یا خودکشی کرنے یا بچوں کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔
البتہ حصولِ انصاف کے لیے اسے جون کی دوپہر میں سفر کی صعوبتیں گلے لگانے سے ھچکچاہٹ نہیں ہوئی۔شائد اسے آج بھی امید ہے کہ انصاف کی مملکت ہوگی تو ایک روٹی میں سے بھی اسے اپنے حصے کا ٹکڑا مل جائےگا۔اور جنگل کا قانون ہوا تو طاقتور اسکا فاقہ ، تن کا ننگ، بے گھری اور عزت بھی بیچ کھائے گا۔
عام ادمی نے لانگ مارچ کیا ہی نہیں۔ یہ تو سیاسی جماعت کے کارکن اور ان کے حامی وکلا تھے۔ عام ادمی تو اپنی زندگی گزرانے کے لیے سامان کی تگ و ود میںلگا ہوا ہے۔
ایسے لشکر سے ڈرنا چاہیے جو ہدف تک پہنچ کر لوٹ جائے۔ایسے لشکر کے صبر اور اعتماد کو کمزوری سمجھنے کا نتیجہ تاریخ میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے۔ایسا لشکر سٹیٹس کو یا جاری نظام برقرار رکھنے کے حامیوں پر ایک مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔دو مرتبہ اعتبار کرتا ہے۔لیکن تیسری مرتبہ اپنا نظریہ، اپنی قیادت اور اپنا نظام ساتھ لاتا ہے اور ریاست کے ستونوں کو اپنےساتھ لے جاتا ہے۔
ایسا لشکر جو واضحہدف رکھتا ہوکبھی اپنے ہدف پر پہنچ کر بے مراد نہیںلوٹتا ۔ ہاں اگر کنفیوژ لوگوں کا ایک گروہ ہو تو پھر کہتا ہے کہ " پھر ائیںگے"
لانگ مارچ کے پرامن اختتام پر حکومت کو سکھ کا سانس لینے کے بجائے تشویش ہونی چاہیے۔یہ اختتام نہیں مہلت ہے۔سو دن کی ترجیحات مکمل کرنے کی مہلت۔عدلیہ کو خودمختار کرنے کی مہلت۔بھوک،ننگ، جہالت ، بیماری اور عدم تحفظ کے خلاف ترجیحات وضع کرنے اور قومی حقوق دینے کی مہلت۔اگر اب بھی مسخرہ پن جاری رہا تو پھر یوں بھی ہوسکتا ہے کہ
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بے کاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی۔
حکومت تو میرے خیال میںسکھ کا سانس لے ہی نہیںسکتی اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام کرتی رہے گی۔ انشاللہ
مگر لانگ مارچ کے کنفوژن کی بنا پر وسعت ایسے تجریدی کالم نہ لکھے تو بی بی سی نوکری سے نہ نکال دے۔