مہ جبین
محفلین
یہ ایک بہترین طنز ہے ملا حضرات پر کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑنے کی بجائے اس سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ، بجائے کہ انسان کو اللہ کی رحمتوں ، اور نعمتوں کا شکر گزار ہونے کی ترغیب دے کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جگائی جائے ، یہ لوگ اس کے الٹ کر رہے ہیں ، خدا کا ایسا تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جس سے اول تو انسان خدا کی ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر بالفرض عبادت بھی کرتا ہے تو صرف دوزخ کے ڈر اور ثواب ، جنت کے لالچ میں ۔ جب کہ عبادت کی روح محبت ہونی چاہیے، انسان جنت دوزخ کیلئے عبادت کرنے کی بجائے ، اللہ کی محبت ، اللہ کا قرب پانے ، اور اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرے ۔ اس خیال سے نیکیاں کرے کہ اس کام کے کرنے سے میرا پیارا اللہ خوش ہوگا، اور اس کام کو نہ کروں کہ اس کے کرنے سے میرا پیارا اللہ مجھے سے ناراض ہو جائے گا۔اصل بات صرف محبت کی ہے
اب ان اشعار کو پڑھیں
میرتقی میرؔ:۔
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
مرزا غالبؔ :۔
طاعت میں تا، رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کو
@مہ جبین آپیاب بھی سمجھ نہیں آئی تو میں ان اشعار کی تشریح بھی حاضر کر دیتا ہوںجی نہیں ایمان میں فرق تب آئے گا جب کوئی دوزخ ، یا جنت کے وجود سے انکار کرے گایہاں انکار جنت یا دوزخ کے وجود کا نہیں، بلکہ لالچ سے انکار ہے جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے
اویس ! جو بات بھی ہمیں سمجھ نہ آئے تو ایک دوسرے سے پوچھنے اور سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے
جو مفہوم تم نے واضح کیا ہے وہ یقیناً صحیح ہی ہوگا
اسی لئے تو میں خود کو کوتاہ علم کہتی ہوں
اور ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں
کہ ذہن کی گرہیں اسی طرح سے کھلتی ہیں
اور علم حاصل کرنے میں بالکل شرم نہیں کرنی چاہئے
جزاک اللہ تم نے مجھے جو سمجھایا ہے
میں اسکی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہوں
اللہ میری مشکلیں آسان کرے
اور تمہارے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین