محمد جاوید اختر
محفلین
ست بسم اللہ جی آیاں نوں
پسند کرں دا بہوں بہوں شکریہ
پسند کرں دا بہوں بہوں شکریہ
بس یار ہُن آپ دیاں باجیان وی مذاق نی سہندیاں، بیا بندہ کیندے نال کھل مزاق کرے
بس یار اب تو اپنی بہنیں بھی مذاق نہیں سمجتیں تو بندہ اور کس سے ہنسی مزاق کرے
آج مہ جبین آپی نے افتتاح کر دیا غیر متفق ہونے کا،
اوہ ہاں شایدارے کہاں غیر متفق کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟
تم نے چشمہ لگا کے نہیں دیکھا تھا ناں
اب دیکھو غور سے
یار تو وی میکوں بئے لوکوں آکوں، سمجھدیں؟؟؟ورنہ میں ایا ای سچیندا پیا ہاں کہ نیرنگ چھوٹا تہڈی ڈاڈھی خبر گھن سی کہ چبلا ای کیا کیتا ائ
یار کمال کی تشریح ہے۔ لاجواب ہے۔ عمدہ ہے۔ اعلی ہے۔ اور یہ سب الفاظ بھی اس لطف کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو لطف اس تشریح پڑھنے میں آیا ہے۔من اٹکیا بے پرواہ دے نالمن اٹکیا بے پرواہ دے نالاس دین دونی دے شاہ دے نالمیرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہےاس کے ساتھ ، جو دین اور دنیا(ساری کائنات) کا شہنشاہ ہےاس شعر میں جہاں عشق حقیقی کا اظہار ہے ، وہیں بے بسی کا اظہار بھی ہےاس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ جیسے کوئی انسان اپنی حیثیت اور مرتبے سے کئی گنا بڑی حیثیت اور مرتبے کے مالک انسان سے دشمنی مول لے لے ، تو اول تو اسے اس بات کا فخر بھی محسوس ہوتا ہے ، کہ دیکھو میں اس سے ڈرا بھی نہیں ، اور پنگا لے لیا۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ ڈر بھی ہوتا ہے ، کہ اب کیا ہوگا، اس دشمنی کا کیا نتیجہ ہونے والا ہے ؟ اس قسم کی فکریں بھی انسان کو لگ جاتی ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے کہ جب ہم نے قرآن کو پہاڑ پر اتارنا چاہا تو وہ لرز گئے، زمین پر اتارنا چاہا تو وہ کانپ گئی، انسان فطرت سے جلد باز ہے اس نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری اور بوجھ ہے ،یہی بات حضرت شاہ حسینؒ فرما رہے ہیں ، کہ انسانی فطرت کے مطابق میں نے بھی اس بے نیاز ذات سے دل لگا لیا ہے ۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کو نبھاؤں گا کیسے؟کیونکہ پیار ، عشق کر لینا تو کوئی بڑی بات نہیں ، بڑی بات تو عشق کر کے نبھانا ہے ، اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ، جو کہ آسان بھی نہیں۔قاضی ملاّں متاں ڈیندےکھڑے سیانے راہ ڈسیندےعشق کی لگے راہ دے نالمن اٹکیا بے پرواہ دے نالقاضی ، اور مُلا ، مجھے تنبیہہ کر رہے ہیں ، خبردار کرتے ہیںکئی سیانے راہنما ، سیدھا راستہ بتانے والے ، کہتے ہیںاس لامکاں اور لا محدود ذات سے کیا عشق کرنامیرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہےقاضی سے مراد اہل علم ، منطقی اور فلسفی لوگ ہیں ۔ ملا ایک استعارہ ہے جو لکیر کے فقیر ، اجتہاد ، اور عمل سے عاری لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔اب یہ سب اہل علم ، اور فلسفی ، اور ملا سب مل کر مجھے تنبیہہ کر رہے ہیں ، مجھے ڈرا رہے ہیں ، کہ باز آ جاؤ اس راستے سے ، اس راستے پر بہت ہی صعوبتیں اور آزمائشیں ہیں ۔یہ ایک بہترین طنز ہے ملا حضرات پر کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑنے کی بجائے اس سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ، بجائے کہ انسان کو اللہ کی رحمتوں ، اور نعمتوں کا شکر گزار ہونے کی ترغیب دے کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جگائی جائے ، یہ لوگ اس کے الٹ کر رہے ہیں ، خدا کا ایسا تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جس سے اول تو انسان خدا کی ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر بالفرض عبادت بھی کرتا ہے تو صرف دوزخ کے ڈر اور ثواب ، جنت کے لالچ میں ۔ جب کہ عبادت کی روح محبت ہونی چاہیے، انسان جنت دوزخ کیلئے عبادت کرنے کی بجائے ، اللہ کی محبت ، اللہ کا قرب پانے ، اور اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرے ۔ اس خیال سے نیکیاں کرے کہ اس کام کے کرنے سے یرا پیارا اللہ خوش ہوگا، اور اس کام کو نہ کروں کہ اس کے کرنے سے میرا پیارا اللہ مجھے سے ناراض ہو جائے گا۔میرتقی میرؔ:۔جائے ہے جی نجات کے غم میںایسی جنت گئی جہنم میںمرزا غالبؔ :۔طاعت میں تا، رہے نہ مے و انگبیں کی لاگدوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کوندیوں پار رنجھن دا ٹھانہکیتے قول ضروری جانڑامنتاں کراں ملاّح دے نالمن اٹکیا بے پرواہ دے نالندی کے اس پار میرے محبوب کا ٹھکانہ ہےمیں نے قول قرار کیے ہیں، اس لیے جانا بھی ضروری ہےاب ملاح کی منت سماجت کرتا ہوںمیرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہےندی کے پار محبوب کے ٹھکانے سے مراد حرمین شریفین ہی ہے ۔ پاکستان (شاعر کے ٹھکانے) اور محبوب حقیقی کے ٹھکانے کے درمیان ایک سمندر حائل ہے۔ اس سمندر کے پار محبوب کا ٹھکانہ ہے ۔ میں نے قول اور قرار کیے ہیں ، کا مطلب ہے ، کہ قبول اسلام کے وقت انسان اقرار کرتا ہے کہ وہ اسلام کے تمام اوامر ونہی کو بجا لائے گا۔ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج بھی ہے ۔ جو کہ انسان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ اب اسی قول اور قرار کو نبھانے کیلئے ، محبوب سے ایک بار ملنے ندی کے پار جانا ضروری ہے ورنہ محبوب کیا کہے گا، کہ عاشق سچا نہیں تھا، صرف ایک ندی پار کر کے مجھے ملنے اور اپنا قول نبھانے بھی نہیں آیا ، اس بات سے عشق کی رسوئی ہے اور مجھے یہ منظور نہیں ۔ اس لیے اب ملاح یعنی جہاز والے کی منت سماجت کرتا ہوں کہ مجھے ندی کے پار پہنچا دے۔اس ندی کے پار پہنچانے والی بات میں ایک زبردست نقطہ ہے۔ ذرا غور کیجئے ۔ عاشق بھی ہے ، محبوب بھی ہے ، محبوب کا ٹھکانہ بھی معلوم ہے، ملنے کیلئے جانے کا پکا ارادہ بھی ہے ، مگر راہ میں جو ندی حائل ہے ، اسے ملاح کی مدد کے بغیر پار نہیں کیا جاسکتا۔اگر کوئی یوسف ثانی صاحب جیسا جذباتی اپنے قوت بازو پر یقین کرتے ہوئے چھلانگ مار دے ، کہ تیر کر ہی محبوب کے ٹھکانے پہنچ جاؤں گا ، تو یہ خام خیالی ہے ، اول تو وہ اتنا دور تیر کر پہنچ ہی نہیں سکتا ۔ دوم یہ کہ اس سمندر میں صرف پانی ہی تو نہیں ہے ، اس میں وہیل مچھلیاں، شارک مچھلیاں ، آدم خور کیکڑے، آکٹوپس، اور خونخوار مگرمچھ بھی تو ہیں ، جو کہ ہر قدم پر گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ ایسے تیرکر تو ٹارزن یا ہر کولیس بھی کبھی نہیں پہنچ سکتا ، ایک عام انسان کی تو حیثیت ہی کیا۔ اب یہاں ضرورت ہے ایک کشتی کی اور کشتی ملاح کے بغیر بے کار ہے ۔ ملاح کو کرایہ دینا ہوگا ، یا اگر پلے کچھ نہیں تو اس کی خدمت کرنی ہوگی، اس کی منت سماجت کرنی ہوگی، اگر ملاح کو راضی کر لیا تو وہ محبوب کے ٹھکانے والے کنارے پر لگا دے گا۔ اب وصل کوئی مشکل نہیں ۔اسی ملاح کو ہم اپنی اصطلاح میں مرشد کریم کہتے ہیں۔کہے حسین فقیر نمانڑاسچے صاحب نوں میں جانڑااوڑک کام اللہ دے نالمن اٹکیا بے پرواہ دے نالبے چارا فقیر حسین ؒ کہتا ہےکہ اس سچے شہنشاہ کو میں مانتا ہوںآخر مجھے اس کے سامنے ہی پیش ہونا ہےمیرا دل اس بے نیاز ذات سے لگ گیا ہےعشق ہمیشہ بے سروسامان ہی ہوتا ہے ، اس لیے شاہ حسین اپنی بے چارگی، اور بے سروسامانی کا ذکر کرتے ہیں ۔استادجی مرزا غالبؔ نے بھی کیا خوب فرمایا ہے :۔شوق ، ہر رنگ ، رقیب سر وساماں نکلاقیس، تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلاجب عشق ہو جائے تو عشق محبوب کے علاوہ ہر چیز سے بے گانہ کر دیتا ہے ، ہر چیز سوا محبوب کے نگاہوں میں ہیچ ہو جاتی ہے ۔ اسی بات کا اظہار شاہ حسین نے اس شعر میں کیا ، کہ میرا مطلوب و مقصود صرف وہی حسن مطلق، محبوب حقیقی ہے، جو کہ تمام کائنات کا اکیلا مالک اور شہنشاہ ہے ۔ وہ مالک یوم الدین ہے ، یہ اس کی بزرگی ہے ۔ ایک دن میں نے اس کے سامنے پیش ہونا ہے ، اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، تو میں کیوں فروعات میں پڑوں ، ان باتوں کا اہتمام کروں جن سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہونے والا ، میں اپنے پروردگار ، اپنے محبوب کو راضی اور خوش کرنے والے کام کیوں نہ کروں ، تاکہ میں قیامت کے دن اس کی ناراضگی سے بچ سکوں اور اس کے قرب کا حقدار ٹھہرایا جا سکوں ۔ اس راستے کی رکاوٹوں کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ، کیونکہ میرا محبوب بھی تو ایک بے نیاز ذات ہے ۔پیشکش :۔ نیرنگ خیالترجمہ و تشریح:۔ مسکین چھوٹا
نہ کر یارا۔۔۔ تو قادرالکلام اے۔ میں تہڈی عزت کریندایار تو وی میکوں بئے لوکوں آکوں، سمجھدیں؟؟؟
توبہ اے سئیں توبہ اے
لوکاں میڈی چنگی عزت خراب کیتی ہوئی اے
میکوں تہاڈی محبتاں تے کوئی شک کینی سجننہ کر یارا۔۔۔ تو قادرالکلام اے۔ میں تہڈی عزت کریندا
لائٹ ہن آئی اےچھوٹاغالبؔ یار اک گال اؤا ای کہ پئل پئل تاں تبصرہ واسطے لنک شامل کریندے رئے اؤ تساں پر ہن شامل کرنا چھوڑ ڈتے۔ لنک تبصرے واسطے لازمی شامل کرو متاں خلقت اتھاں ہی شروع تھی ونجے
مجھے شک ہے کہ مجھ سے کند ذہن کو بھی سمجھ لگ گئی۔ یا شائد نہیں لگییہ ایک بہترین طنز ہے ملا حضرات پر کہ وہ انسان کو خدا سے جوڑنے کی بجائے اس سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں ، بجائے کہ انسان کو اللہ کی رحمتوں ، اور نعمتوں کا شکر گزار ہونے کی ترغیب دے کر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جگائی جائے ، یہ لوگ اس کے الٹ کر رہے ہیں ، خدا کا ایسا تصور لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، جس سے اول تو انسان خدا کی ذات سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر بالفرض عبادت بھی کرتا ہے تو صرف دوزخ کے ڈر اور ثواب ، جنت کے لالچ میں ۔ جب کہ عبادت کی روح محبت ہونی چاہیے، انسان جنت دوزخ کیلئے عبادت کرنے کی بجائے ، اللہ کی محبت ، اللہ کا قرب پانے ، اور اللہ کی رضا کیلئے عبادت کرے ۔ اس خیال سے نیکیاں کرے کہ اس کام کے کرنے سے میرا پیارا اللہ خوش ہوگا، اور اس کام کو نہ کروں کہ اس کے کرنے سے میرا پیارا اللہ مجھے سے ناراض ہو جائے گا۔اصل بات صرف محبت کی ہے
اب ان اشعار کو پڑھیں
میرتقی میرؔ:۔
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
مرزا غالبؔ :۔
طاعت میں تا، رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دے کوئی لیکر بہشت کو
@مہ جبین آپیاب بھی سمجھ نہیں آئی تو میں ان اشعار کی تشریح بھی حاضر کر دیتا ہوںجی نہیں ایمان میں فرق تب آئے گا جب کوئی دوزخ ، یا جنت کے وجود سے انکار کرے گایہاں انکار جنت یا دوزخ کے وجود کا نہیں، بلکہ لالچ سے انکار ہے جو ان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے
یار اناں کو آکھو اتنی محنت گندم بیجن تے کر گھنن۔ کوئی قوم فائدہ چا گھنڑ سیمیکوں تہاڈی محبتاں تے کوئی شک کینی سجن
میڈا مطلب اے ہئی جو تساں وی لوکوں دے آکھے لگ گئے وے، جیہڑے میکوں حسدی، خود غرض، تے الا بلا ثابت کرن دے وچ ڈیہنہ رات ہک کیتی پئے ہن
حوصلہ افزائی دا بہوں شکریہیار کمال کی تشریح ہے۔ لاجواب ہے۔ عمدہ ہے۔ اعلی ہے۔ اور یہ سب الفاظ بھی اس لطف کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو لطف اس تشریح پڑھنے میں آیا ہے۔