ٹیلی پیتھی کیا ہے - از فیصل عظیم فیصل

bilal260

محفلین
یہ مضمون تو میں پرنٹ آئوٹ نکال کر چار دفعہ پڑھ بھی چکاہوں۔
شکریہ۔
مگر اس تھریڈ میں لکھا ہے مشقوں کے لئے سی ڈی خریدنا پڑے گی۔
لگائو پیسے۔
مفت میں دے دیں۔نیٹ پر مگر نہیں کوئی بات نہیں ۔
 

متلاشی

محفلین
میرے پاس ایک کافی پرانی اور نایاب کتاب پڑی ہے ٹیلی پیتھی کے متعلق ۔۔۔۔ جو کہ امریکہ میں ٹیلی پیتھی کے نصاب میں شامل ہے ۔۔۔! اسے کوشش کر کے سکین کر کے یہاں لگا دوں گا۔۔۔!
اس میں کافی مشقیں لکھی ہوئی ہیں ۔۔۔۔!
 

نایاب

لائبریرین
یہ مضمون تو میں پرنٹ آئوٹ نکال کر چار دفعہ پڑھ بھی چکاہوں۔
شکریہ۔
مگر اس تھریڈ میں لکھا ہے مشقوں کے لئے سی ڈی خریدنا پڑے گی۔
لگائو پیسے۔
مفت میں دے دیں۔نیٹ پر مگر نہیں کوئی بات نہیں ۔
محترم بھائی اک سوال (اگر ناگوار گزرے ) تو معذرت
آپ یہ " ہپناٹزم " کس نیت سے سیکھنا چاہتے ہیں ۔ ؟
ذاتی اصلاح مقصود ہے یاکہ
خلق خدا کی خدمت
یا صرف یہ کہ " مخلوق " کو اپنے اشارے پرچلانا چاہتے ہیں ۔
ایسے تمام علوم جو کہ انسان کے " سوچ و خیال " کی پرواز کو طاقت ور بناتے ہیں ۔
ان تمام علوم کی بنیاد " مراقبہ " اور " تزکیئے " پر استوار ہوتی ہے ۔
"مراقبہ کرتے خود کو جانو " سچے رب کو پہچانو ۔ اور اس سچے رب کی پہچان حاصل کرنے والے ہی " عارف با للہ " کہلاتے ہیں ۔
آپ کو سنجیدہ پایا تو یہ سب سنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترم بھائی
 
محترم بھائی اک سوال (اگر ناگوار گزرے ) تو معذرت
آپ یہ " ہپناٹزم " کس نیت سے سیکھنا چاہتے ہیں ۔ ؟
ذاتی اصلاح مقصود ہے یاکہ
خلق خدا کی خدمت
یا صرف یہ کہ " مخلوق " کو اپنے اشارے پرچلانا چاہتے ہیں ۔
ایسے تمام علوم جو کہ انسان کے " سوچ و خیال " کی پرواز کو طاقت ور بناتے ہیں ۔
ان تمام علوم کی بنیاد " مراقبہ " اور " تزکیئے " پر استوار ہوتی ہے ۔
"مراقبہ کرتے خود کو جانو " سچے رب کو پہچانو ۔ اور اس سچے رب کی پہچان حاصل کرنے والے ہی " عارف با للہ " کہلاتے ہیں ۔
آپ کو سنجیدہ پایا تو یہ سب سنایا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ محترم بھائی
نایاب بھائی ظاہری سی بات ہے کہ یہ علوم اپنی انا کو مزید بلند کرنے اور رعب داب جمانے کے لیئے ہی استعمال کیئے جاتے ہیں۔ فیس بک پر ایک صاحب دوست بنے پھر سکائپ فرینڈ بن گئے پھر موبائل فرینڈ بن گئے اب جناب گھر بھی آن پہنچے ہیں ساری دنیا چھان ماری ہے حضرت نے عجیب و غریب قسم کی چلہ کشیاں کی ہوئی ہیں سارے اعمال بالکل درست ہیں ۔۔۔۔۔ اب وہ جاری نہیں ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گیا کہ آپ نے صرف عمار نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کے اعمال جاری نہیں ہورہے ہیں اب میں عجیب مخمصے اور مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں کہ اس کو کیسے صرف عمار کا طریقہ بتاؤں جو کہ انتہائی پوشیدہ اور مخفی چیز ہوتا ہے کیونکہ بندہ انتہائی مالدار ہونے کے ساتھ جاہ و حشمت اور تعریف سننے کا حریص ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی ظاہری سی بات ہے کہ یہ علوم اپنی انا کو مزید بلند کرنے اور رعب داب جمانے کے لیئے ہی استعمال کیئے جاتے ہیں۔ فیس بک پر ایک صاحب دوست بنے پھر سکائپ فرینڈ بن گئے پھر موبائل فرینڈ بن گئے اب جناب گھر بھی آن پہنچے ہیں ساری دنیا چھان ماری ہے حضرت نے عجیب و غریب قسم کی چلہ کشیاں کی ہوئی ہیں سارے اعمال بالکل درست ہیں ۔۔۔ ۔۔ اب وہ جاری نہیں ہورہے ہیں ۔۔۔ ۔۔ پتہ نہیں کیسے میرے منہ سے نکل گیا کہ آپ نے صرف عمار نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کے اعمال جاری نہیں ہورہے ہیں اب میں عجیب مخمصے اور مصیبت میں پھنسا ہوا ہوں کہ اس کو کیسے صرف عمار کا طریقہ بتاؤں جو کہ انتہائی پوشیدہ اور مخفی چیز ہوتا ہے کیونکہ بندہ انتہائی مالدار ہونے کے ساتھ جاہ و حشمت اور تعریف سننے کا حریص ہے۔
محترم روحانی بابا جی
" سیکھ نہ دیجیو باندرا کو جو بیئے کا گھر دے اجاڑ "
جو اپنی ہستی ہی نہیں مٹا سکا وہ " گل و گلزار " کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
چلہ کشیاں اپنی جگہ ۔۔۔۔۔ اعمال اپنی جگہ ۔ مگر " مراد تو نیت پر ہے "
نیت صاف نہیں تو " نماز بھی دکھاوا "
وہ اپنی نیت درست کریں ۔ سب "عمل " جاری ہو جائیں گے ۔
جس مقصود کو پانے لیے چلہ کشی کی جائے اس "مرکز مقصود " کے سامنے ہستی کو مٹانا اور اس کے احکامات کا اتباع کرنا لازم ۔
"چلہ کشیاں " چاہے کالی ہوں چاہے نورانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

bilal260

محفلین
روحانی بابا
نایاب
محترم بھائی اک سوال (اگر ناگوار گزرے ) تو معذرت
آپ یہ " ہپناٹزم " کس نیت سے سیکھنا چاہتے ہیں ۔ ؟
ذاتی اصلاح مقصود ہے یاکہ
خلق خدا کی خدمت
یا صرف یہ کہ " مخلوق " کو اپنے اشارے پرچلانا چاہتے ہیں ۔
ایسے تمام علوم جو کہ انسان کے " سوچ و خیال " کی پرواز کو طاقت ور بناتے ہیں ۔
ان تمام علوم کی بنیاد " مراقبہ " اور " تزکیئے " پر استوار ہوتی ہے ۔
"مراقبہ کرتے خود کو جانو " سچے رب کو پہچانو ۔ اور اس سچے رب کی پہچان حاصل کرنے والے ہی " عارف با للہ " کہلاتے ہیں ۔
آپ کو سنجیدہ پایا تو یہ سب سنایا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ محترم بھائی

مجھےکوئی تکلیف نہیں ہے۔
اور نہ ہی معزرت کریں۔
میرے ایک دوست نے مجھے گولی مار دی جو کہ میری گردن سے پار ہو گئی میں نے تو اسے معاف اسی وقت کر دیا تھا۔
عاجزی ظاہری الفاظ کی نہیں دل کی ہوتی ہے۔ میرے نقطہ نظر سے۔
میں اپنی عمر اس لئے نہیں لکھتا لوگ مجھ بڑا سمجھ کر عزت دیں۔
اور مجھے نہ سمجھائے کہ بڑا ہے اور پاگل ہے۔ایسے میں اصلاح کا عمل رک جاتا ہے۔
میں کوئی بھی روحانی عمل وغیرہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے کر نا چاہتا ہوں۔
بالخصوص اپنی بیوی کی اصلاح کے لئے جس کی وجہ سے ہمارا گھر مسائلستان بنا ہوا ہے۔
میں مسلمان نہ ہوتا تو کب کا خود کشی کر چکا ہوتا۔لیکن اسلام اور علم دین نے اس گناہ کبیرہ سے بچا لیا۔
دنیا میں ہر جگہ سکون ہے مگر میرے گھر میں نہیں ہے نہ ہے نہ ہو گا نہ ہو سکے گا یہ حقیقت ہے۔
 
روحانی بابا
نایاب


مجھےکوئی تکلیف نہیں ہے۔
اور نہ ہی معزرت کریں۔
میرے ایک دوست نے مجھے گولی مار دی جو کہ میری گردن سے پار ہو گئی میں نے تو اسے معاف اسی وقت کر دیا تھا۔
عاجزی ظاہری الفاظ کی نہیں دل کی ہوتی ہے۔ میرے نقطہ نظر سے۔
میں اپنی عمر اس لئے نہیں لکھتا لوگ مجھ بڑا سمجھ کر عزت دیں۔
اور مجھے نہ سمجھائے کہ بڑا ہے اور پاگل ہے۔ایسے میں اصلاح کا عمل رک جاتا ہے۔
میں کوئی بھی روحانی عمل وغیرہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے کر نا چاہتا ہوں۔
بالخصوص اپنی بیوی کی اصلاح کے لئے جس کی وجہ سے ہمارا گھر مسائلستان بنا ہوا ہے۔
میں مسلمان نہ ہوتا تو کب کا خود کشی کر چکا ہوتا۔لیکن اسلام اور علم دین نے اس گناہ کبیرہ سے بچا لیا۔
دنیا میں ہر جگہ سکون ہے مگر میرے گھر میں نہیں ہے نہ ہے نہ ہو گا نہ ہو سکے گا یہ حقیقت ہے۔
السلام علیکم برادرم
آپ کو کیوں ایسا لگتا ہے کہ آپ کا گھر مسائلستان آپ کی اہلیہ کی وجہ سے بنا ہوا ہے۔۔؟
(اگر تمہیں کوئی شخص ناپسند ہو تو عین ممکن کہ اللہ کے نزدیک و شخص انتہائی پسندیدہ ہو)
(عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو یہ ٹوٹ جائے گی)
کہیں آپ آدھے خالی گلاس کو تو نہیں دیکھ رہے ۔۔؟
(کبھی کبھی جو شے تمہیں اپنے لیئے مناسب لگتی ہے و تمہارے لیئے مناسب نہیں ہوتی اور جو تمہیں اپنے لیئے مناسب نہیں لگتی اسی میں تمہارے لیئے خیر ہے)
یقیناََ اصلاح ضروری ہے مگر اس سے پہلے کہ اصلاح کی جائے یہ بھی تو دیکھئیے کہ اصلاح کنندہ خود کہیں اصلاح کا حاجتمند تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔؟
(لماتقولون ما لا تفعلون)
علم اور اسلام اللہ تعالیٰ کی دین ہیں اور کسی بھی گناہ سے بچنے کی قوت و ہمت اس پاک ذات کی عطا کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتی ۔(لاحول ولا وقوۃ الا بااللہ العلی العظیم)
اصلاح کا عمل جب شخصی حیثیت میں کیا جاتا ہے تو علیحدگی میں کھلے ذہن کے ساتھ دوسرے کے خیالات تحفظات و احساسات کو سمجھ کر حکمت سے کیا جاتا ہے ۔ دوسرے کسی طریقے میں فتنے کا اندیشہ ہے ۔

آپکا مسئلہ ظن کا ہے چاہے وہ آپ کی طرف ہو یا وہ آپکی اہلیہ کی طرف ہو ۔
آپ خود کو درست یا انہیں غلط(یا بالعکس) سمجھنے کی بجائے اپنے مسئلے کو کاغذ پر لکھئیے دو تین بار اسکا مطالعہ کیجئے اور کسی عالم دین سے مشورہ کر لیجئے لیکن یاد رکھئے ایمانداری اور غیر جذباتی کیفیت میں ہی آپ اپنے مسئلے کو سمجھ سکیں گے اور اسکے حل کے لیئے مدد حاصل کر سکیں گے ۔ (لاتظلمو ولا تظلمو ) نہ ظلم کیجئے نا کرنے دیجئے

(معذرت کے ساتھ کہ یقیناََ نہ تو یہ جگہ اس موضوع پر گفتگو کو مزید گہرائی میں لے جانے کے لیئے مناسب ہے اور نہ ہی میرا بطور ایک ایسے اجنبی کے جس کے ساتھ فی الحال آپ کی جان پہچان صرف اسکرین پر ابھرنے والی چند لائنوں تک محیط ہے اس موضوع پر گہرائی میں جانے کا کوئی حق ہے)
 
ہائے ہائے سالی نیت کا ہی تو سارا بکھیڑا ہے یہ کیسے صاف کریں اس کو کیسے صیقل کریں کوئی بتا سکتا ہے؟؟؟
فضل الہی سے میسر مرشد کامل ہی سالک کو راستے میں انگلی پکڑ کر لے جاسکتا ہے ۔ ورنہ بس ٹامک ٹوئیاں۔۔۔! (لا شئی ینحل المشاکل للسالکین علی الطریق الخیر الا بفضل اللہ)
 

باباجی

محفلین
میں نے بھی کافی کچھ سیکھا اپنے بڑوں سے کافی منازل بھی طے کیں
لیکن یہ بھی کہہ دیا گیا کہ جب تک کوئی سوال نہ کرے آپ چاہ کر بھی کچھ نہ کرنا
یہ رمز کافی دیر بعد سمجھ آئی
اور یہ بھی سمجھ آگیا کہ صبر و برداشت و راضی برضا رہنا کسے کہتے ہیں
کہ کچھ کرنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود مشیت ایزدی پر راضی رہنے سے جو سکون و اطمینان ٌ حاصل ہوتا ہے ہو وہ کسی بھی منزل کو پورا کرنے سے زیادہ اچھا ہوتا ہے
سیکھنے پر پابندی نہیں ہے اصل چیز اس کا استعمال ہے
مجھے کبھی بھی کوئی بھی عمل سیکھنے یا منزل پوری کرنے میں کوئی د شواری نہیں ہوئی جتنا مشکل کسب حلال کما نے میں اٹھانی پڑتی ہے
اسی مشکل نے قوت ارادی اور تحمل دیا
 

نایاب

لائبریرین
ہائے ہائے سالی نیت کا ہی تو سارا بکھیڑا ہے یہ کیسے صاف کریں اس کو کیسے صیقل کریں کوئی بتا سکتا ہے؟؟؟
محترم روحانی بابا جی
آپ کے سامنے " نیت " کو " صیقل " کرنا گویا " سورج کو چراغ دکھانا " ہے ۔
میرے ناقص خیال سے ۔۔۔۔۔
نیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بمعنی " ارادہ "
یہ " نیت " یہ " ارادہ " کہاں سے ابھرتا ہے ۔۔۔؟
اس کا " مسکن " انسانی وجود " میں کہاں ہے ۔۔۔۔؟
اگر تو " قلب " کو اس کا مسکن مان لیں ۔ اور اس کے ابھرنے کی جگہ " ذہن " کو قرار دے لیں ۔
تو پھر اس کی صفائی قدرے آسان امر ہو سکتی ہے ۔
" قلب سلیم " اسے ہی کہا جاتا ہے جو " لالچ و بغض " سے پاک ہو ۔ " خواہش نفس " کسی بھی صورت ممنوع نہیں ، اگر " لالچ و بغض " پر استوار نہ ہو ۔ انسان لالچ و بغض سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرے ۔ تو نیت کی صفائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔
انسان کسی بھی مذہب سے وابستہ ہو ۔ اس کا مذہب اسے یہ حکم دیتا ہے کہ وہ " انسانیت کی خدمت " بنا کسی لالچ کے کرے ۔ کسی کو " بغض " کے جذبہ سے حقیر نہ سمجھے ۔ معطون نہ کرے ۔
ہم تو مسلمان ہیں ۔ اسلام " سلامتی کے دین " کے حامل ۔۔ ہمارے محترم معزز و مکرم پیشوا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے " نیت " کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے راستے سے پتھر ہٹا دینے کو نیکی قرار دیا ہے ۔ اور نیکی " قلب سلیم " کے حامل کا ہی عمل ہوتا ہے ۔
لوگوں کے لیئے آسانیاں فراہم کرنے کا جذبہ دل میں ہو تو " دل صاف نیت پاک " ہوجاتی ہے ۔
اور اگر دوسروں کی جگہ صرف خود کو آسانی فراہم کرنے کی سوچ رکھی جائے تو " لالچ " ہی دل میں سمایا اور نیت کو بہکایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں ۔۔۔ جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔ ۔۔۔۔ اس کے کہے پر ہی اگر انسان سچے دل سے بے چون و چرا عمل کر لے تو " جھوٹ لالچ بغض طمع " سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور اگر ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرنے والے " خالق " کے کہے کو مان خود کو اس کے حوالے کر دے ۔ تو کس مقام پر پہنچنا ممکن ہے ۔ یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے جن کے پختہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ منزل پا ہی لیتے ہیں بلا شبہ ۔۔
 
فضل الہی سے میسر مرشد کامل ہی سالک کو راستے میں انگلی پکڑ کر لے جاسکتا ہے ۔ ورنہ بس ٹامک ٹوئیاں۔۔۔ ! (لا شئی ینحل المشاکل للسالکین علی الطریق الخیر الا بفضل اللہ)
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
اس شیخ نامی مخلوق کو کہاں ڈھونڈیں کدھر پائیں میں تو تھک گیا ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
روحانی بابا
نایاب


مجھےکوئی تکلیف نہیں ہے۔
اور نہ ہی معزرت کریں۔
میرے ایک دوست نے مجھے گولی مار دی جو کہ میری گردن سے پار ہو گئی میں نے تو اسے معاف اسی وقت کر دیا تھا۔
عاجزی ظاہری الفاظ کی نہیں دل کی ہوتی ہے۔ میرے نقطہ نظر سے۔
میں اپنی عمر اس لئے نہیں لکھتا لوگ مجھ بڑا سمجھ کر عزت دیں۔
اور مجھے نہ سمجھائے کہ بڑا ہے اور پاگل ہے۔ایسے میں اصلاح کا عمل رک جاتا ہے۔
میں کوئی بھی روحانی عمل وغیرہ اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لئے کر نا چاہتا ہوں۔
بالخصوص اپنی بیوی کی اصلاح کے لئے جس کی وجہ سے ہمارا گھر مسائلستان بنا ہوا ہے۔
میں مسلمان نہ ہوتا تو کب کا خود کشی کر چکا ہوتا۔لیکن اسلام اور علم دین نے اس گناہ کبیرہ سے بچا لیا۔
دنیا میں ہر جگہ سکون ہے مگر میرے گھر میں نہیں ہے نہ ہے نہ ہو گا نہ ہو سکے گا یہ حقیقت ہے۔
میرے محترم بھائی
رب سچے نے آپ کو " عفو و درگزر " کی صفت سے نوازا ہے ۔ ماشاءاللہ
بلاشبہ عاجزی اختیار کرنا " عند اللہ " محبوب عمل ہے ۔
بلاشبہ " عزت و ذلت " کا مالک صرف اللہ ہے ۔
" عمروں " کا کیا ہے ۔ میں خود زندگی کی شام دیکھ رہا ہوں ۔
آپ کی نیت بہت اچھی ہے کہ آپ " اللہ کی مخلوق " کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔
پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام کی اکثریت زمانہ حال میں ایسے ہی مسائل کا شکار ہے ۔
اللہ تعالی آپ کو صبر و ہمت اور بھابھی جان کو ہدایت سے نوازے ۔ آمین
اس بارے " ذپ " میں بات کرنی مناسب رہے گی ۔ ؟
ویسے اک نہایت آسان اور مجرب عمل ہے جو کہ گھر والوں کے درمیان " انس و محبت " پیدا کرتا ہے ۔
بس اس کے لیئے " فجر " کی نماز کو کم از کم 21 دن بلا ناغہ مستقل کرنا ہوتا ہے ۔
گھر کا جو بھی فرد کسی مسائیل میں مبتلا یا کسی مسائیل کی بنیاد جانا جاتا ہو ۔اس کا " بنام " تصور بعد از فرض نماز فجر کے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے اک بار درود شریف پڑھ کر سات بار " سورہ فاتحہ "کو مکمل پڑھا جائے ۔ اور ہر بار " والضالین " پر پہنچ اس کا نام لیکر اللہ سے اس کی ہدایت کی دعا کرنا ہوتی ہے ۔ سات بار " سورہ فاتحہ " پڑھ کر اک تسبیح " یا ودود " کی پڑھ کر گھر کے باورچی خانے میں موجود جس برتن میں استعمال کی چینی رکھی ہوتی ہے ۔ اس پر اس یقین کے ساتھ پھونک مارنا لازم ہوتی ہے کہ " ہر طرح کی ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے "
دیگر کچھ اور بھی وظایف اور چلہ کشیاں ہیں جو کہ اکثر کسی نہ کسی " بد احتیاطی " کی وجہ سے صرف وقت کا زیاں بنتی ہیں ۔
محترم بھائی آپ کی بات کا جواب لکھتے لکھتے کہیں بچپن میں پہنچ گیا ۔ اک بزرگ بہت کرنی والے مشہور تھے ۔ مجھے انہیں کے اردگرد مخلوق کا جھمگٹا دیکھ بہت خواہش ہوتی تھی کہ میرے پاس بھی یہ علم ہو جیسا کہ ان بزرگ کے پاس ہے ۔ اور میں بھی مخلوق خدا " کی بھلائی کرتے ایسی ہی عزت و مشہوری پاؤں ۔ اس لالچ کو لے کر ان کی خدمت شروع کر دی ۔ سکول سے بھاگنا ان کے ڈیرے پر جانا ۔ وہاں صفائی ستھرائی کرنی ۔ اور ان کے پاس آنے والوں کی خدمت کرنی ۔ اک تو چرب زبانی کا حامل تھا دوسرے اپنے ذہن سے اک منصوبہ بنا کر ان بزرگ کی توجہ خاص حاصل کرنا چاہتا تھا ۔ ان بزرگ کو جب کبھی فراغت ہونی ڈیرے پر کوئی نہ ہوتا ۔ تو مجھ سے بھی بات ہوتی ۔ سادات کی نسبت سے بہت احترام بھی کرتے تھے ۔ مجھے ان وقتوں میں دس بیس روپیئے بھی دے دیتے ۔ اک دن کہنے لگے کہ سیدا سکول جایا کر ۔ پڑھ لکھ کے افسر بن جائے گا ۔ یہاں ےکیوں وقت برباد کرتا ہے ۔ سکول میں تیرا دل کیوں نہیں لگتا ۔۔۔۔؟
میں نے کہا " بابا جی " مجھے آپ کچھ ایسے وظیفے سکھا دیں ۔ جن سے میں بھی آپ کی طرح لوگوں کی خدمت کیا کروں ۔
کہنے لگے اچھا ۔۔ اگر تجھے وظیفے سکھا دوں تو کیسے لوگوں کا بھلا کرے گا ۔ ؟
لاکھ شاطر تھا مگر بچگانہ ذہن تھا اس وقت میرا ۔
میں نے کہا جو کوئی مشکل میں ہوا کرے گا اس کے مشکل حل کر دیا کروں گا ۔
" بابا جی " ہنسے اور کہا کہ " تو اللہ بننا چاہتا ہے " یا " اللہ کا مقابلہ " کرنا چاہتا ہے ۔
کہنے لگے کہ یہ مشکلیں یہ دکھ یہ پریشانیاں سب ہی آزمائیشیں اللہ ہی کی جانب سے ہوتی ہیں ۔
اور وہی ان کو ختم بھی کرتا ہے ۔ اگر اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کی حالت نہیں بدل سکتا ۔
حق ان کی مغفرت فرمائے آمین ان کی باتیں یاد آ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
اس شیخ نامی مخلوق کو کہاں ڈھونڈیں کدھر پائیں میں تو تھک گیا ہوں۔
خود میں اتر کر دیکھا سب " شیخ " مرشد " و سالک " موجود پایا۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اگر " انا الحق " کا نعرہ لگایا تو دار و سولی کو بھی سجایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
محترم روحانی بابا جی
آپ کے سامنے " نیت " کو " صیقل " کرنا گویا " سورج کو چراغ دکھانا " ہے ۔
میرے ناقص خیال سے ۔۔۔ ۔۔
نیت ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ بمعنی " ارادہ "
یہ " نیت " یہ " ارادہ " کہاں سے ابھرتا ہے ۔۔۔ ؟
اس کا " مسکن " انسانی وجود " میں کہاں ہے ۔۔۔ ۔؟
اگر تو " قلب " کو اس کا مسکن مان لیں ۔ اور اس کے ابھرنے کی جگہ " ذہن " کو قرار دے لیں ۔
تو پھر اس کی صفائی قدرے آسان امر ہو سکتی ہے ۔
" قلب سلیم " اسے ہی کہا جاتا ہے جو " لالچ و بغض " سے پاک ہو ۔ " خواہش نفس " کسی بھی صورت ممنوع نہیں ، اگر " لالچ و بغض " پر استوار نہ ہو ۔ انسان لالچ و بغض سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرے ۔ تو نیت کی صفائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔
انسان کسی بھی مذہب سے وابستہ ہو ۔ اس کا مذہب اسے یہ حکم دیتا ہے کہ وہ " انسانیت کی خدمت " بنا کسی لالچ کے کرے ۔ کسی کو " بغض " کے جذبہ سے حقیر نہ سمجھے ۔ معطون نہ کرے ۔
ہم تو مسلمان ہیں ۔ اسلام " سلامتی کے دین " کے حامل ۔۔ ہمارے محترم معزز و مکرم پیشوا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے " نیت " کو اعمال کی بنیاد قرار دیتے راستے سے پتھر ہٹا دینے کو نیکی قرار دیا ہے ۔ اور نیکی " قلب سلیم " کے حامل کا ہی عمل ہوتا ہے ۔
لوگوں کے لیئے آسانیاں فراہم کرنے کا جذبہ دل میں ہو تو " دل صاف نیت پاک " ہوجاتی ہے ۔
اور اگر دوسروں کی جگہ صرف خود کو آسانی فراہم کرنے کی سوچ رکھی جائے تو " لالچ " ہی دل میں سمایا اور نیت کو بہکایا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ماں ۔۔۔ جس کے قدموں تلے جنت ہے ۔ ۔۔۔ ۔ اس کے کہے پر ہی اگر انسان سچے دل سے بے چون و چرا عمل کر لے تو " جھوٹ لالچ بغض طمع " سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور اگر ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرنے والے " خالق " کے کہے کو مان خود کو اس کے حوالے کر دے ۔ تو کس مقام پر پہنچنا ممکن ہے ۔ یہ کسی سے بھی مخفی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
ارادے جن کے پختہ ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وہ منزل پا ہی لیتے ہیں بلا شبہ ۔۔
واہ واہ سبحان اللہ
قلب سلیم کو بھی آپ جانتے ہیں کیا بات ہے آپ کی۔
قلب کی تشریح نایاب بھائی کے لیئے
قلب ایک جوہر نورانی ہے۔
بہ حیثیت مادہ مجرد ہے ۔
روح اور نفس حیوانی کو ملانے والا(برزخ) ہے۔
باطن اس کا روح اور ظاہر اس کا نفس حیوانی ہے ۔
اس کو حکیم و فلسفی نفس ناطقہ کہتے ہیں ۔
اسی طرح نفس حیوانی ملانے والا ہے جسداور قلب( گوشت پوست سے بنے جسم یا ڈھانچہ یا کالبعد )کو
سورۃ نور کی 35ویں آیت پاک میں مَثَلُ نُورِہ کَمِشْکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ ٗ(ط)اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ (ط)اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبُ ٗ دُرّیُّ ٗ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّاشَرْقِیَّۃٍوَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ میں اللہ تعالیٰ نے جسد کی تشبیہہ مشکواۃ یعنی چراغ دان سے دی ہے اور قلب کی زجاجۃ یعنی طاق سے اور روح کی مصباح یعنی چراغ سے اور نفس حیوانی کی شجرۃ سے یعنی جسد آدم میں نفس حیوانی ہے اور نفس حیوانی میں قلب ہے اور قلب میں روح ہے اور روح کے بعد کے مراتب اس حدیث قدسی میں ان فی جسد ابن آدم ا لمضغۃ و فی المضغۃ قلب روح و فی الروح نور و فی النور سر و فی السر انا میں بیان کیئے ہیں یعنی جسد آدم میں مضغہ ہے اور مضغہ میں قلب ہے اور قلب میں روح اور روح میں نور اور نور میں سِر اور سِر میں انا۔
قلب کی تین اقسام ہیں ۔
۱۔ قلب منیب
قلب منیب سے خطرات روحی اور نیک کام سرزد ہوتے ہیں ۔جیسے تقویٰ ۔ریاضت و مجاہدہ ۔عبادت وغیرہ قلب منیب کی شہادت سورۃ ق مَنْ خَشِیْ اَلرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبِ م مُنِیْب ۳۳۔کی یہ آیۃ
مبارک دیتی ہے ۔(جو خدا بغیر دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرنے والا دل لیکر آیا ہے)
۲۔ قلب سلیم
قلب سلیم سے حق سبحانہٗ کی محبت اور طلب علم اور عرفان حاصل ہوتا ہے ۔قلب سلیم کی شہادت سورۃ شعراء یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ۔إِلَّا مَنْ أَتَی اللَّہَ بِقَلْبٍ سَلِیْم ۔۸۸۔۸۹۔ کی یہ آیۃ مبارک دیتی ہے ۔(جس دن نہ مال کچھ فائدہ دیگا نہ بیٹے۔ہاں وہ شخص جو خدا کے پاس پاک دل لیکر آیا)
۳۔ قلب شہید
قلب شہید سے توحید حقیقی اور ذرہ ذرہ میں شہودِ ذات حاصل ہوتا ہے ۔قلب شہید کی شہادت سورۃ ق ۔ لِمَن کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْد:۳۷ کی یہ آیۃ مبارک دیتی ہے ۔(جو شخص دل (آگاہ)رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے اس کے لیئے اس میں نصیحت ہے )
درحقیقت یہی قلب شہید حق سبحانہٗ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس کی وسعت ایسی غیر محدود ہے کہ لامکان الاحد کی اس میں سمائی ہے ۔
 
Top