ٹیلی پیتھی کیا ہے - از فیصل عظیم فیصل

نایاب

لائبریرین
واہ واہ سبحان اللہ
قلب سلیم کو بھی آپ جانتے ہیں کیا بات ہے آپ کی۔
قلب کی تشریح نایاب بھائی کے لیئے
قلب ایک جوہر نورانی ہے۔
بہ حیثیت مادہ مجرد ہے ۔
روح اور نفس حیوانی کو ملانے والا(برزخ) ہے۔
باطن اس کا روح اور ظاہر اس کا نفس حیوانی ہے ۔
اس کو حکیم و فلسفی نفس ناطقہ کہتے ہیں ۔
اسی طرح نفس حیوانی ملانے والا ہے جسداور قلب( گوشت پوست سے بنے جسم یا ڈھانچہ یا کالبعد )کو
سورۃ نور کی 35ویں آیت پاک میں مَثَلُ نُورِہ کَمِشْکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحُ ٗ(ط)اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ (ط)اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّھَا کَوْکَبُ ٗ دُرّیُّ ٗ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْتُوْنَۃٍ لَّاشَرْقِیَّۃٍوَّ لَا غَرْبِیَّۃٍ میں اللہ تعالیٰ نے جسد کی تشبیہہ مشکواۃ یعنی چراغ دان سے دی ہے اور قلب کی زجاجۃ یعنی طاق سے اور روح کی مصباح یعنی چراغ سے اور نفس حیوانی کی شجرۃ سے یعنی جسد آدم میں نفس حیوانی ہے اور نفس حیوانی میں قلب ہے اور قلب میں روح ہے اور روح کے بعد کے مراتب اس حدیث قدسی میں ان فی جسد ابن آدم ا لمضغۃ و فی المضغۃ قلب روح و فی الروح نور و فی النور سر و فی السر انا میں بیان کیئے ہیں یعنی جسد آدم میں مضغہ ہے اور مضغہ میں قلب ہے اور قلب میں روح اور روح میں نور اور نور میں سِر اور سِر میں انا۔
قلب کی تین اقسام ہیں ۔
۱۔ قلب منیب
قلب منیب سے خطرات روحی اور نیک کام سرزد ہوتے ہیں ۔جیسے تقویٰ ۔ریاضت و مجاہدہ ۔عبادت وغیرہ قلب منیب کی شہادت سورۃ ق مَنْ خَشِیْ اَلرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبِ م مُنِیْب ۳۳۔کی یہ آیۃ
مبارک دیتی ہے ۔(جو خدا سے بغیر دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرنے والا دل لیکر آیا ہے)
۲۔ قلب سلیم
قلب سلیم سے حق سبحانہٗ کی محبت اور طلب علم اور عرفان حاصل ہوتا ہے ۔قلب سلیم کی شہادت سورۃ شعراء یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ۔إِلَّا مَنْ أَتَی اللَّہَ بِقَلْبٍ سَلِیْم ۔۸۸۔۸۹۔ کی یہ آیۃ مبارک دیتی ہے ۔(جس دن نہ مال کچھ فائدہ دیگا نہ بیٹے۔ہاں وہ شخص جو خدا کے پاس پاک دل لیکر آیا)
۳۔ قلب شہید
قلب شہید سے توحید حقیقی اور ذرہ ذرہ میں شہودِ ذات حاصل ہوتا ہے ۔قلب شہید کی شہادت سورۃ ق ۔ لِمَن کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْد:۳۷ کی یہ آیۃ مبارک دیتی ہے ۔(جو شخص دل (آگاہ)رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے اس کے لیئے اس میں نصیحت ہے )
درحقیقت یہی قلب شہید حق سبحانہٗ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس کی وسعت ایسی غیر محدود ہے کہ لامکان الاحد کی اس میں سمائی ہے ۔
سبحان اللہ
بہت خوب محترم روحانی بابا جی
اک سوال کیا اک عام انسان ( چنیدہ ہستیوں ) کے علاوہ بیک وقت " قلب منیب و سلیم و شہید " کا حامل ہو سکتا ہے ۔ ؟
کیا یہ درجات اکتسابی طور پر حاصل کیئے جاتے ہیں یا کہ یہ صرف " عطا " ہوتی ہے ۔ ؟
دھاگے کا موضوع چونکہ " ہپناٹزم و ٹیلی پیتھی " سے منسلک ہے ۔
اور یہ علوم وہی حاصل کر سکتا ہے ۔ جوکہ قلب " منیب یا سلیم یا شہید " کا حامل ہو ۔
اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہم مسلمان تو " کتاب الہی " کے تابع رہتے ان درجات کو حاصل کر سکتے ہیں ۔
یا ہماری نیت پر ہمیں یہ " عطا " ہو جاتے ہیں ۔ لیکن غیر مسلم جو کہ ایسے علوم میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اور ان علوم کے بل پر ان سے صادر ہونے والے واقعات کو ہم " استدراج " کے حکم میں رکھتے ہیں ۔ وہ یہ مہارت کس " یقین " سے حاصل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

سویدا

محفلین
آپ سب کی گفتگو پڑھ کر اچھا لگا نایاب بھائی روحانی بابا اور فیصل عظیم
نیت ، جذبات ، احساسات خالص ، صاف اور بے غرض ہوں اورعمل صحیح ہو تو ہر انسان پاسکتا ہے
 
سبحان اللہ
بہت خوب محترم روحانی بابا جی
اک سوال کیا اک عام انسان ( چنیدہ ہستیوں ) کے علاوہ بیک وقت " قلب منیب و سلیم و شہید " کا حامل ہو سکتا ہے ۔ ؟
کیا یہ درجات اکتسابی طور پر حاصل کیئے جاتے ہیں یا کہ یہ صرف " عطا " ہوتی ہے ۔ ؟
دھاگے کا موضوع چونکہ " ہپناٹزم و ٹیلی پیتھی " سے منسلک ہے ۔
اور یہ علوم وہی حاصل کر سکتا ہے ۔ جوکہ قلب " منیب یا سلیم یا شہید " کا حامل ہو ۔
اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ ہم مسلمان تو " کتاب الہی " کے تابع رہتے ان درجات کو حاصل کر سکتے ہیں ۔
یا ہماری نیت پر ہمیں یہ " عطا " ہو جاتے ہیں ۔ لیکن غیر مسلم جو کہ ایسے علوم میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اور ان علوم کے بل پر ان سے صادر ہونے والے واقعات کو ہم " استدراج " کے حکم میں رکھتے ہیں ۔ وہ یہ مہارت کس " یقین " سے حاصل کرتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
مندرجہ بالا دو درجات تک تو غیر مسلم بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن قلب شہید تک وہی پہنچتا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوتا ہے۔ تمام امتوں میں سے صرف اور صرف یہ اعزاز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو حاصل ہے کہ وہ اس مقام تک پہنچ پائے دوسرا یہ کہ ٹیلی پیتھی وغیرہ بہت معمولی چیز ہے اس سے بڑے بڑے تصرفات ہوتے ہیں کیا المقنع نے چاہ نخشب سے چاند نہیں نکالا تھا۔
 
نایاب جی لگتا ہے آپ قلب کی تشریح بچوں کی طرح سمجھانی پڑے گی
قلب مؤمن صوفیاء کی نظر میں
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںلَا یَسَعُنِی اَرْضِی وَلَا سَمَائِی وَ یَسَعُنِی قَلْبُ عَبْدِی الْمُؤمِنِ التَّقِیِّ ۔ ’’ میں کسی چیز میں نہیں سماتا لیکن مؤمن کا قلب ایسی جگہ ہے جہاں میں سما جاتا ہوں ‘‘ اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ مؤمن کی فراست سے ڈر کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘‘
اسی مؤمن کی فراست کو دیکھتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ایک صوفی فرماتے ہیں
فیضِ خدا کہ بر دلِ آگاہ می رسد
اے دل باہوش باش کے ناگاہ می رسد
یہ دلِ بیدار ، دلِ بینا یا دل کی آنکھیں کیا چیز ہیں ؟ آئیے دیکھتے ہیں
دل کے ۳ خانے ہیں
پہلے خانے کے اندر ایک نور روشن ہے اور وہی جگہ اسلام کی ہے اور حروف کے معانی یہاں متشکل ہیں اور یہی انسان میں قوت ناطقہ (یعنی قوتِ گویائی) کامقام ہے ( یعنی ) نفس میں ابھرنے والے ارادہ کے معانی کا انتظام کرتی ہے اس جوف کی ایک نورانی آنکھ ہے جس سے وہ محسوسات کے اسرار اور مرکبات کے اطوار کو محسوس کرتا ہے اور حروف کے حقائق اور ان کے اندر اسماء کے اعلیٰ اسرارجو اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھے ہیں ان کو دیکھتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو اللہ کے نیک بندوں سے مُؤَدّت ہو تی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا انعام کیا ہے کہ اسرار محسوسات اس پر منکشف کر دیئے ہیں ۔(نفسِ ناطقۂِ انسانی اس دنیا میں مسافر ہے اور بدن انسانی میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ
اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقید کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے اصلی وطن کو فراموش نہیں کرتا ہے)
دوسرا خانہ قلب کے درمیان میں ہے جو ایک روشن نو ر، فکر و ذکر کا مقام ہے اور یہی اطمینان اور روح کے خیالات کا مقام اور عشق کی جگہ ہے اسکی بھی ایک نورانی آنکھ ہے جس سے وہ طلب و تلاش کا ادراک کرتاہے اور کسی شے کی جستجو اور تلاش میں کوشش کرتا ہے لطافت کے سبب اس حصہ کا تعلق اشخاص سے بہت جلد ہوتا ہے اسی حصہ پر عالمِ ملکوت اور اسکے متعلق عجائباتِ مخلوقاتِ الھٰی کا ظہور ہوتا ہے ۔
تیسراخانہ قلب کے آخر میں ہے اور یہ حصہ سارے قلب سے زیادہ نرم اور لطیف ہے اسکا نام فُؤَاد ہے ایمان، عقل نور ،تصرف اور اسرار کی جگہ بھی اسی میں ہے اور یہی عقل کی میزان اور حکمتوں کا منبع اور حیاتِ طبعیہ جو حرارتِ لطیفہ سے پیدا ہوتی ہے کی محبت کا مقام ہے اس فُؤَاد کی بھی ایک نورانی آنکھ ہوتی ہے جس سے یہ عالمِ ملکوت کے حقائق اور عالمِ علوی کے کُلّی اور جزوی اسرار و رموز اور حقائق کا ادراک کر تا ہے اور یہی فُؤَاد، انوارِ وھبی اور اسرارعلوی کا محل ہے اور اسی چشمِ بصیرت کی شان میں اللہ کریم فرماتے ہیں۔فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ(الحج۔۴۶) یعنی بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں اقباؔل
متذکرہ اسرار و محسوسات یہ سب دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ قوتِ حیات کا مرکز اسی قلب میں ہے پھر یہ پھیل کر دماغ اور جگر میں مختلف ارواح بنا تا ہے اس میں روح حیوانی جو کہ آثارِ روحِ انسانی کے قلب پر تصرف کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے قلب میں صدور سے روح مؤثر بن جاتی ہے یہی نفسِ ناطقہ (یعنی گویائی)ہے اور ’’ وائٹل فورس‘‘Vital Force یہیں ہے پھر عروق و شرائن کے ذریعے اعصاب و عضلات و غدود کی تعمیر کرتی ہے اور روحِ حیوانی ، روحِ نفسانی اور روحِ طبعی بناتی ہے ہر روح کے الگ الگ اثرات اور امراض ہیں ۔بات کافی آگے بڑھ گئی ہے اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
 
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
اس شیخ نامی مخلوق کو کہاں ڈھونڈیں کدھر پائیں میں تو تھک گیا ہوں۔
پہلے یہ سمجھئیے کہ آپ کہاں موجود ہیں ۔ اسکے بعد یہ دیکھئے کہ آپ کو جانا کہاں ہے ۔ یہ دوچیزیں بہت ضروری ہیں ۔ دوسری بات اگر کسی شخص معین کی طرف اشارہ کرنا ہو تو اس کے لیئے آپ ان میں سے ڈھونڈ سکتے ہیں ۔
قرآن کریم و سیرت پاک کا مطالعہ کیجئے اور اللہ عزوجل سے اسکے فضل کے طلبگار رہیئے ۔
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک حیات و پابند شرع ہیں تو اولیت انکی اتباع و خدمت کی ہے ۔
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک حیات و غیر پابند شرع ہیں تو انکی ہر جائز و حلال شے میں پیروی اور خدمت کیجئے
اگر والدین پردہ فرما چکے ہیں تو انکی مغفرت کے لیئے اپنی سعی و دعائیں کرتے رہیئے ۔
اب آگے باری آتی ہے مرشد یا شیخ کی تلاش کی
اپنے اردگرد دیکھئیے شریعت کے عامل کسی سلسلے کے فیض یافتہ مفوض بزرگ کی صحبت اختیار کیجئے ۔ اور انکے زیر سایہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجئے ۔ وقت آنے پر پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں ۔
کبھی کبھی جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا تو عافیت خاموشی اور اتباع میں ہے

ہم ہیں تو ہیں نہیں ہیں تو نہیں ہیں ۔ جو چاہیں ضروری نہیں کہ ملے مگر جو ملے اس پر راضی ہونا اور رہنا بہت ضروری ہے اور خواب جتنا بھی طویل ہو آخر بیداری ہونا ہی ہوتی ہے ۔ اس لیئے خواب میں مگن رہنا بیداری پر یاس کا سبب ہوتا ہے ۔

اگر کوئی مرشد نہ مل سکا تو احمقوں اور پاگلوں میں تلاش کیجئے گا ۔ عقل و دانش کے سوتے کبھی کبھی ان سے بھی پھوٹتے ہیں

تمام تر کوششیں بار آور ہونے کے لیئے اللہ کا فضل شامل حال ہوا تو ہی کامیابی ہے ورنہ جان بچائیے اپنی اور اپنی رعایا کی
 

نایاب

لائبریرین
نایاب جی لگتا ہے آپ کو قلب کی تشریح بچوں کی طرح سمجھانی پڑے گی
قلب مؤمن صوفیاء کی نظر میں
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںلَا یَسَعُنِی اَرْضِی وَلَا سَمَائِی وَ یَسَعُنِی قَلْبُ عَبْدِی الْمُؤمِنِ التَّقِیِّ ۔ ’’ میں کسی چیز میں نہیں سماتا لیکن مؤمن کا قلب ایسی جگہ ہے جہاں میں سما جاتا ہوں ‘‘ اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ مؤمن کی فراست سے ڈر کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘‘
اسی مؤمن کی فراست کو دیکھتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ایک صوفی فرماتے ہیں
فیضِ خدا کہ بر دلِ آگاہ می رسد
اے دل باہوش باش کے ناگاہ می رسد
یہ دلِ بیدار ، دلِ بینا یا دل کی آنکھیں کیا چیز ہیں ؟ آئیے دیکھتے ہیں
دل کے ۳ خانے ہیں
پہلے خانے کے اندر ایک نور روشن ہے اور وہی جگہ اسلام کی ہے اور حروف کے معانی یہاں متشکل ہیں اور یہی انسان میں قوت ناطقہ (یعنی قوتِ گویائی) کامقام ہے ( یعنی ) نفس میں ابھرنے والے ارادہ کے معانی کا انتظام کرتی ہے اس جوف کی ایک نورانی آنکھ ہے جس سے وہ محسوسات کے اسرار اور مرکبات کے اطوار کو محسوس کرتا ہے اور حروف کے حقائق اور ان کے اندر اسماء کے اعلیٰ اسرارجو اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ رکھے ہیں ان کو دیکھتا ہے اور اسی وجہ سے اس کو اللہ کے نیک بندوں سے مُؤَدّت ہو تی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا انعام کیا ہے کہ اسرار محسوسات اس پر منکشف کر دیئے ہیں ۔(نفسِ ناطقۂِ انسانی اس دنیا میں مسافر ہے اور بدن انسانی میں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ
اللہ تعالیٰ کے حکم سے مقید کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے اصلی وطن کو فراموش نہیں کرتا ہے)
دوسرا خانہ قلب کے درمیان میں ہے جو ایک روشن نو ر، فکر و ذکر کا مقام ہے اور یہی اطمینان اور روح کے خیالات کا مقام اور عشق کی جگہ ہے اسکی بھی ایک نورانی آنکھ ہے جس سے وہ طلب و تلاش کا ادراک کرتاہے اور کسی شے کی جستجو اور تلاش میں کوشش کرتا ہے لطافت کے سبب اس حصہ کا تعلق اشخاص سے بہت جلد ہوتا ہے اسی حصہ پر عالمِ ملکوت اور اسکے متعلق عجائباتِ مخلوقاتِ الھٰی کا ظہور ہوتا ہے ۔
تیسراخانہ قلب کے آخر میں ہے اور یہ حصہ سارے قلب سے زیادہ نرم اور لطیف ہے اسکا نام فُؤَاد ہے ایمان، عقل نور ،تصرف اور اسرار کی جگہ بھی اسی میں ہے اور یہی عقل کی میزان اور حکمتوں کا منبع اور حیاتِ طبعیہ جو حرارتِ لطیفہ سے پیدا ہوتی ہے کی محبت کا مقام ہے اس فُؤَاد کی بھی ایک نورانی آنکھ ہوتی ہے جس سے یہ عالمِ ملکوت کے حقائق اور عالمِ علوی کے کُلّی اور جزوی اسرار و رموز اور حقائق کا ادراک کر تا ہے اور یہی فُؤَاد، انوارِ وھبی اور اسرارعلوی کا محل ہے اور اسی چشمِ بصیرت کی شان میں اللہ کریم فرماتے ہیں۔فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِی فِی الصُّدُورِ(الحج۔۴۶) یعنی بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ ؎
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں اقباؔل
متذکرہ اسرار و محسوسات یہ سب دل کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ قوتِ حیات کا مرکز اسی قلب میں ہے پھر یہ پھیل کر دماغ اور جگر میں مختلف ارواح بنا تا ہے اس میں روح حیوانی جو کہ آثارِ روحِ انسانی کے قلب پر تصرف کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے قلب میں صدور سے روح مؤثر بن جاتی ہے یہی نفسِ ناطقہ (یعنی گویائی)ہے اور ’’ وائٹل فورس‘‘Vital Force یہیں ہے پھر عروق و شرائن کے ذریعے اعصاب و عضلات و غدود کی تعمیر کرتی ہے اور روحِ حیوانی ، روحِ نفسانی اور روحِ طبعی بناتی ہے ہر روح کے الگ الگ اثرات اور امراض ہیں ۔بات کافی آگے بڑھ گئی ہے اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
بہت شکریہ مفصل سمجھانے کا محترم روحانی بابا جی
بچوں کو سمجھاتے اپنا علم ہی بڑھتا ہے اور آگہی کی شمع بھی روشن رہتی ہے ۔ میرے بھائی
یہ " قلب مومن " کسے کہیں گے ۔ ؟ قلب شہید کو قلب منیب کو یا قلب سلیم کو ۔۔۔۔۔۔۔؟
آپ نے قلب شہید کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی سے مشروط ذکر فرمایا ۔
سو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی بعثت مبارکہ سے پہلے کوئی قلب شہید کا حامل نہیں ہوا ۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
پہلے یہ سمجھئیے کہ آپ کہاں موجود ہیں ۔ اسکے بعد یہ دیکھئے کہ آپ کو جانا کہاں ہے ۔ یہ دوچیزیں بہت ضروری ہیں ۔ دوسری بات اگر کسی شخص معین کی طرف اشارہ کرنا ہو تو اس کے لیئے آپ ان میں سے ڈھونڈ سکتے ہیں ۔
قرآن کریم و سیرت پاک کا مطالعہ کیجئے اور اللہ عزوجل سے اسکے فضل کے طلبگار رہیئے ۔
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک حیات و پابند شرع ہیں تو اولیت انکی اتباع و خدمت کی ہے ۔
اگر والدین یا ان میں سے کوئی ایک حیات و غیر پابند شرع ہیں تو انکی ہر جائز و حلال شے میں پیروی اور خدمت کیجئے
اگر والدین پردہ فرما چکے ہیں تو انکی مغفرت کے لیئے اپنی سعی و دعائیں کرتے رہیئے ۔
اب آگے باری آتی ہے مرشد یا شیخ کی تلاش کی
اپنے اردگرد دیکھئیے شریعت کے عامل کسی سلسلے کے فیض یافتہ مفوض بزرگ کی صحبت اختیار کیجئے ۔ اور انکے زیر سایہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجئے ۔ وقت آنے پر پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں ۔
کبھی کبھی جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے اور جو ہوتا ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا تو عافیت خاموشی اور اتباع میں ہے
ہم ہیں تو ہیں نہیں ہیں تو نہیں ہیں ۔ جو چاہیں ضروری نہیں کہ ملے مگر جو ملے اس پر راضی ہونا اور رہنا بہت ضروری ہے اور خواب جتنا بھی طویل ہو آخر بیداری ہونا ہی ہوتی ہے ۔ اس لیئے خواب میں مگن رہنا بیداری پر یاس کا سبب ہوتا ہے ۔
اگر کوئی مرشد نہ مل سکا تو احمقوں اور پاگلوں میں تلاش کیجئے گا ۔ عقل و دانش کے سوتے کبھی کبھی ان سے بھی پھوٹتے ہیں
تمام تر کوششیں بار آور ہونے کے لیئے اللہ کا فضل شامل حال ہوا تو ہی کامیابی ہے ورنہ جان بچائیے اپنی اور اپنی رعایا کی
واہہہہہہہہہہہہہہہ
کیا بات کہی ہے میرے محترم بھائی
حق کہا سچ کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ احمقوں اور پاگلوں کی گفتگو سے بھی دانش حاصل کی جا سکتی ہے ۔ شرط صرف "جذب " کی ہے
 

سویدا

محفلین
میرے پاس ایک کافی پرانی اور نایاب کتاب پڑی ہے ٹیلی پیتھی کے متعلق ۔۔۔ ۔ جو کہ امریکہ میں ٹیلی پیتھی کے نصاب میں شامل ہے ۔۔۔ ! اسے کوشش کر کے سکین کر کے یہاں لگا دوں گا۔۔۔ !
اس میں کافی مشقیں لکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ ۔!

از راہ کرم اگر اس کتاب اور مصنف کا نام بتادیں کیا پتہ پی ڈی ایف میں مل جائے
 

نایاب

لائبریرین
میرے محترم بھائی
ان علوم کی تلاش میں اک عمر بھٹکا ہوں ۔ اور حاصل یہ ہوا کہ " جتنا ان علوم کی تلاش میں یکسوئی اور محنت و مشقت کی ضرورت ہے ۔ اس سے کہیں کم محنت میں " ذکر الہی " کو یکسوئی سے " ذکر " کرتے " نیک نیتی " کے ساتھ انسانوں کے لیئے آسانیاں پیدا کرتے " سچے سمیع العلیم " سے تعلق کو جوڑنا ان علوم سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔
ٹیلی پیتھی ہپناٹزم مسمریزم جیسے علوم کو علوم روحانی کی مختلف شاخیں قرار دیا جاتا ہے ۔ ان علوم میں مہارت حاصل کرنے لیئے کچھ "اصول " اور " مشقوں " کو مخصوص و لازم قرار دیا جاتا ہے ۔ جن پر مکمل یکسوئی اور ارتکاز توجہ سے عمل کیا جاتا ہے ۔ یہ مشقیں " ہمہ قسم پاکیزگی " اور " نیک نیتی " کے ہمراہ " تنہائی " اور " خاموش مقامات " پر کی جاتی ہیں ۔ جہاں کسی باعث ارتکاز یا یکسوئی مجروح نہ ہو ۔ ان " علوم " کو حاصل کرنے کی بنیادی شرائط میں " طالب علم " کا اپنی ذات پر بھروسہ اعتماد مکمل یقین کے ہمراہ نڈر بے خوف ہوتے لگن محنت بے حد مشقت اور زبردست " قوت ارادی " کا ہونا مظاہر کائنات پر غورو فکر کرنے عمیق مشاہدے کا عادی ہوتے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنا لازم امور میں شامل ہیں ۔
ان " علوم " کی ابتدا جن مشقوں سے ہوتی ہے ۔ ان میں سب سے بنیادی " مشق " اپنی قوت ادراک کی قابلیت اور صلاحیت سے آگہی حاصل کرنا ہے ۔ اور یہ جانچنا ہوتا ہے کہ ہماری " قوت ادراک " کس قدر یکسوئی اور جذب کی حامل ہے ۔
اک " طالب علم " کیسے اپنی " قوت ادراک " کی صلاحیت و قابلیت بارے آگہی پا سکتا ہے ۔
" ادراک " کسی بھی انسانی ذہن کی پرواز قیاس اور اندازے کی صلاحیت کا نام ہے "
 

زبیر حسین

محفلین
میرے محترم بھائی
ان علوم کی تلاش میں اک عمر بھٹکا ہوں ۔ اور حاصل یہ ہوا کہ " جتنا ان علوم کی تلاش میں یکسوئی اور محنت و مشقت کی ضرورت ہے ۔ اس سے کہیں کم محنت میں " ذکر الہی " کو یکسوئی سے " ذکر " کرتے " نیک نیتی " کے ساتھ انسانوں کے لیئے آسانیاں پیدا کرتے " سچے سمیع العلیم " سے تعلق کو جوڑنا ان علوم سے بے نیاز کر دیتا ہے ۔
ٹیلی پیتھی ہپناٹزم مسمریزم جیسے علوم کو علوم روحانی کی مختلف شاخیں قرار دیا جاتا ہے ۔ ان علوم میں مہارت حاصل کرنے لیئے کچھ "اصول " اور " مشقوں " کو مخصوص و لازم قرار دیا جاتا ہے ۔ جن پر مکمل یکسوئی اور ارتکاز توجہ سے عمل کیا جاتا ہے ۔ یہ مشقیں " ہمہ قسم پاکیزگی " اور " نیک نیتی " کے ہمراہ " تنہائی " اور " خاموش مقامات " پر کی جاتی ہیں ۔ جہاں کسی باعث ارتکاز یا یکسوئی مجروح نہ ہو ۔ ان " علوم " کو حاصل کرنے کی بنیادی شرائط میں " طالب علم " کا اپنی ذات پر بھروسہ اعتماد مکمل یقین کے ہمراہ نڈر بے خوف ہوتے لگن محنت بے حد مشقت اور زبردست " قوت ارادی " کا ہونا مظاہر کائنات پر غورو فکر کرنے عمیق مشاہدے کا عادی ہوتے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھنا لازم امور میں شامل ہیں ۔
ان " علوم " کی ابتدا جن مشقوں سے ہوتی ہے ۔ ان میں سب سے بنیادی " مشق " اپنی قوت ادراک کی قابلیت اور صلاحیت سے آگہی حاصل کرنا ہے ۔ اور یہ جانچنا ہوتا ہے کہ ہماری " قوت ادراک " کس قدر یکسوئی اور جذب کی حامل ہے ۔
اک " طالب علم " کیسے اپنی " قوت ادراک " کی صلاحیت و قابلیت بارے آگہی پا سکتا ہے ۔
" ادراک " کسی بھی انسانی ذہن کی پرواز قیاس اور اندازے کی صلاحیت کا نام ہے "
جزوی اختلاف ہے۔۔۔
ٹیلی پیتھی روحانیت کی شاخ نہیں ،روح اور روحانیت مادیت سے ہٹ کر ہیں جبکہ ٹیلی پیتھی ایک مادی چیز ہے۔۔۔آپ کے خیالات کی لہریں ہیں جو اپنا وجود رکھتی ہیں شائد انسان کچھ عرصہ تک اس قابل ہو جائے کہ مشینوں (کمپیوٹروغیرہ) سے بھی ٹیلی پیتھی جیسا رابطہ کر سکےاب وہ رابطہ روحانی تو کسی صورت نہیں کہلائے گا۔۔۔ٹیلی پیتھی کا تعلق روح سے ہر گزنہیں ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
جزاک اللہ میرے محترم بھائی
یقین کریں آپ کا یہ اختلاف میرے لیئے آگہی کے نئے در کھولنے کا باعث بنا ۔
آپ نے ٹیلی پیتھی کو " مادی " قرار دیتے روحانیت سے الگ قرار دیا ۔
روحانی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ
" سلاسل روحانیت " میں " شیخ و سالک " کے درمیان رابطہ اس " علم " پر ہی قائم ہوتا ہے ۔
آنکھ بند کی سر جھکایا اور تصور " شیخ و سالک " قائم ہوا ۔ اور پیغام و نصیحت منزل تک پہنچی ۔
اگر ہر وجود رکھنے والی شئے کو " مرئی و غیر مرئی " کی قید سے آزاد رکھتے " مادی " قرار دیا جائے تو پھر " روح " کو بھی " مادی " قرار دینا پڑے گا جو کہ اپنا اک بین وجود رکھتی ہے ۔
آج کے دور میں موبائل فونز پر رابطہ " مشینی ٹیلی پیتھی " کہلا سکتا ہے جو کہ " فرد " کی شناخت " اک خاص نمبر " سے کرتا ہے ۔
ہر " علم " جو " عمل " سر انجام دیتا ہے وہ بہر صورت کسی نہ کسی " میڈیم یا واسطے " پر قائم ہوتا ہے ۔
اور یہ " میڈیم یا واسطہ " ہی اس علم کے " روحانی یا مادی " ہونے کا ثبوت ہوتا ہے ۔
 
جزاک اللہ میرے محترم بھائی
یقین کریں آپ کا یہ اختلاف میرے لیئے آگہی کے نئے در کھولنے کا باعث بنا ۔
آپ نے ٹیلی پیتھی کو " مادی " قرار دیتے روحانیت سے الگ قرار دیا ۔
روحانی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ
" سلاسل روحانیت " میں " شیخ و سالک " کے درمیان رابطہ اس " علم " پر ہی قائم ہوتا ہے ۔
آنکھ بند کی سر جھکایا اور تصور " شیخ و سالک " قائم ہوا ۔ اور پیغام و نصیحت منزل تک پہنچی ۔
اگر ہر وجود رکھنے والی شئے کو " مرئی و غیر مرئی " کی قید سے آزاد رکھتے " مادی " قرار دیا جائے تو پھر " روح " کو بھی " مادی " قرار دینا پڑے گا جو کہ اپنا اک بین وجود رکھتی ہے ۔
آج کے دور میں موبائل فونز پر رابطہ " مشینی ٹیلی پیتھی " کہلا سکتا ہے جو کہ " فرد " کی شناخت " اک خاص نمبر " سے کرتا ہے ۔
ہر " علم " جو " عمل " سر انجام دیتا ہے وہ بہر صورت کسی نہ کسی " میڈیم یا واسطے " پر قائم ہوتا ہے ۔
اور یہ " میڈیم یا واسطہ " ہی اس علم کے " روحانی یا مادی " ہونے کا ثبوت ہوتا ہے ۔
عقل کو ہاتھ ڈالیں نایاب بھائی کیسی باتاں کرتے ہیں بھلا مشینوں سے بھی کبھی ملاقاتاں ہوئی ہیں
 
سو، بھائیوں نے نہایت عمدہ باتیں کیں اور حقائق سے بھی روشناس کروایا ، لیکن ابھی تک اس دھاگے کا جو مقصد ہے ، یعنی ٹیلہی پیتھی ، اس سے متعلق کسی نے کوئی پیش رفت نہیں دی، اگر کسی کے پاس اس سلسلے میں کچھ مواد یا علم ہے تو براہ کرم شیئر کریں۔
 

نایاب

لائبریرین
عقل کو ہاتھ ڈالیں نایاب بھائی کیسی باتاں کرتے ہیں بھلا مشینوں سے بھی کبھی ملاقاتاں ہوئی ہیں
محترم روحانی بابا جی " عقل " نظر آتی تو اس کو ضرور پکڑا جا سکتا ۔ مگر اک تو عقل نظر نہیں آتی دوسرے میں ابھی " عقل " کے "ع "تک ہی نہ پہنچ پایا ۔ " ق ل " تو بہت دور کی بات ہے ۔ اور اپنا تو گزارا ہی " مشینی ملاقاتوں " پہ ہے ۔ ملاقات کرتا ہوں پیاس بڑھتی ہے آس لگتی ہے تو گنگناتا ہوں کہ " اب کہ سال پونم میں " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ " موبائل فونز " اور " نیٹ " کے سگنلز کیا ہیں ۔ یہ کیسے جنریٹ ہوتے ہیں ۔ کس فریکوئنسی پر سفر کرتے ہیں ۔ ہزاروں میل کی دور پہ اس " یار دل دار " تک پہنچ سماعتوں میں رنگ گھولتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
 

نایاب

لائبریرین
سو، بھائیوں نے نہایت عمدہ باتیں کیں اور حقائق سے بھی روشناس کروایا ، لیکن ابھی تک اس دھاگے کا جو مقصد ہے ، یعنی ٹیلہی پیتھی ، اس سے متعلق کسی نے کوئی پیش رفت نہیں دی، اگر کسی کے پاس اس سلسلے میں کچھ مواد یا علم ہے تو براہ کرم شیئر کریں۔
میرے محترم بھائی " بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں " ٹیلی پیتھی " بارے ۔
آپ اک معمولی سی مشق کیجئے ۔ جب بھی فون کی گھنٹی بجے ۔ دروازے پہ دستک ہو ۔ فون اٹھانے سے پہلے اور دروازہ کھولنے سے پہلے اپنے خیال و وجدان کو پرواز دیتے یہ ادراک کرنے اور اندازہ لگانے کی کوشش کیجئے کہ فون کون کر رہا ہے ۔ اور آنے والے کا کیا مقصد ہے ۔۔ ؟
ناکامی پر گھبرائیے نہیں ۔ کچھ ہی دنوں بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا اندازہ کسی حد تک درستگی کی جانب رواں ہے ۔
اپنے کسی ایسے عزیز کی آواز کو اپنے ذہن میں تازہ کیجئے ۔جو کہ آپ سے شدید محبت یا نفرت میں مبتلا ہو ۔ آواز کی مدد سے اس کے تصور کو اپنی بند آنکھوں کے سامنے مجسم کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اور جب تصور مجسم ہونے لگے تو اپنے دل کی خواہش پورے یقین کے ساتھ اس کے ذہن تک پہنچانے کی کوشش کیجئے ۔ کچھ دنوں میں آپ اپنی خواہش کی ترسیل میں ہوئی کامیابی یا ناکامی بارے جان جائیں گے ۔
اگر تو آپ کو ان دو مشقوں میں کسی حد تک کامیابی ملتی ہے تو پھر کوئی بھی ٹیلی پیتھی بارے لکھی کتاب لے کر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ سیکھنے کی کوشش کیجئے ۔ اور محترم فیصل عظیم فیصل بھائی سے رابطہ کرتے انہیں اپنا رہنما بنا لیجئے ۔
دیوار پر دائرے بنا انہیں تکتے رہنا ۔
موم بتی جلا اس کی لو کو گھورتے رہنا ۔ ارتکاز میں مددگار ہو سکتے ہیں ۔ لیکن " خیال " کی پرواز پر اعتماد انسانی ذہن اور مضبوط قوت ارادی پر منحصر ہوتی ہے ۔
 
جزوی اختلاف ہے۔۔۔
ٹیلی پیتھی روحانیت کی شاخ نہیں ،روح اور روحانیت مادیت سے ہٹ کر ہیں جبکہ ٹیلی پیتھی ایک مادی چیز ہے۔۔۔ آپ کے خیالات کی لہریں ہیں جو اپنا وجود رکھتی ہیں شائد انسان کچھ عرصہ تک اس قابل ہو جائے کہ مشینوں (کمپیوٹروغیرہ) سے بھی ٹیلی پیتھی جیسا رابطہ کر سکےاب وہ رابطہ روحانی تو کسی صورت نہیں کہلائے گا۔۔۔ ٹیلی پیتھی کا تعلق روح سے ہر گزنہیں ہے۔
چلو پھر زندگی بھائی کے اس بیان کی روشنی میں کہ ٹیلی پیتھی کا تعلق روح سے "ہرگز نہیں ہے" صرف ایک سوال کا جواب مطلوب ہے ۔

1۔ روح کا وجود ثابت کریں سائنسی دلائل کی روشنی میں
2۔ مادی طور پر سوچ کا وجود ثابت کریں مادے کی تعریف کے سائے کی روشنی میں

شکرگزار
 
سو، بھائیوں نے نہایت عمدہ باتیں کیں اور حقائق سے بھی روشناس کروایا ، لیکن ابھی تک اس دھاگے کا جو مقصد ہے ، یعنی ٹیلہی پیتھی ، اس سے متعلق کسی نے کوئی پیش رفت نہیں دی، اگر کسی کے پاس اس سلسلے میں کچھ مواد یا علم ہے تو براہ کرم شیئر کریں۔
برادرم مواد تو شئیر کیا گیا تھا ۔ مگر فی الحال گفتگو پر گزارا کیجئے کیونکہ اسی گفتگو سے بہت سے ابہامات کا ازالہ ہونے کی توقع ہے اور جب ابہامات کا ازالہ ہوجائے گا تو کوئی سیکھنے سکھانے کی طرف بھی شاید ۔۔۔ یہاں شاید پر تشدید ہے ۔۔۔ توجہ دے
 
مندرجہ بالا دو درجات تک تو غیر مسلم بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن قلب شہید تک وہی پہنچتا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوتا ہے۔ تمام امتوں میں سے صرف اور صرف یہ اعزاز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو حاصل ہے کہ وہ اس مقام تک پہنچ پائے دوسرا یہ کہ ٹیلی پیتھی وغیرہ بہت معمولی چیز ہے اس سے بڑے بڑے تصرفات ہوتے ہیں کیا المقنع نے چاہ نخشب سے چاند نہیں نکالا تھا۔
مزید عرض یہ ہے کہ کچھ قوانین فطرت ہیں ۔ ان قوانین فطرت کے ساتھ کچھ نتائج کو باندھ دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جیسے
جو قوم اپنی حالت خود نہ بدلے اسکی حالت خدائے بزرگ و برتر تبدیل نہیں فرماتا۔
درست سمت میں محنت کی جائے گی تو کامیابی یقینی ہے وغیرہ
ظلم کی بنیاد پر قائم نظام دیرپا نہیں ہو سکتا
پیلے رنگ پر نیلا رنگ ڈالا جائے تو سیاہ رنگ کا تاثر واضح ہوگا

اسی طرح کچھ طرق یا مشقوں کے کرنے سے کچھ صلاحیتوں کا پیدا ہونا بھی یقینی ہے ۔ وہ جیسا کہ معاشیات میں کہتے ہیں نا کہ )اگر باقی حالات جوں کے توں رہیں تو فلاں قانون کے تحت فلاں اثرات کا ظاہر ہونا معین ہے ۔ ( مثال قانون تقلیل افادہ مختتم) تو غیر مسلم یا مشرک اس فن میں آگے بڑھنے کے لیئے ایسے قوانین کا سہارا لیتے ہیں ، یہ وہی اصول و قوانین ہیں جو ہم مسلم بھی اپنے انداز میں مانتے اور ان پر عمل کرتے ہیں ۔ لیکن کیوں کہ ہر کوئی اپنی حدود و قیود سے بندھا ہوا ہے تو حضرت مشرکین ۔ کفار اور دیگر ادیان کو ماننے والے یا نہ ماننے والے اپنے نصاب کے مطابق اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں اور مسلمین اپنے نصاب کی روشنی میں اپنی منزل کی طرف سفر کرتے ہیں ۔

لیکن یہ بات طے ہے کہ جیسے ہر چیز کی حدود ہیں کفار و مشرکین کی اس علم میں بڑھوتری کی بھی حدود ہیں (ہمارے نقطہ نظر سے) اور الحمدللہ بہت سے ایسے مواقع آئے ہیں جہاں اہل علم (مسلم) نے غیر مذاہب کے لوگوں کی (باذن اللہ ) استعانت کرکے انہیں مشاکل سے نکالا ہے تو تمیئیز تو ہوگا اور ضرور ہوگا
 
Top